• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سونے چاندی کی زکوٰة میں قیمت فروخت کا اعتبار کیوں

استفتاء

اسلام علیکم: جس طرح صدقة الفطر میں فقیر کو گیہوں دی جاتی ہے یا اس کی قیمت کا مالک بنا دی جاتی ہے کہ اگر وہ خریدنا چاہے تو خرید سکے،  تو سونے کے زیورات کے ذکوة میں ہم کیوں سنار کی قیمت خرید کا اعتبار کرتے ہے اس کی قیمت فروخت کا نہیں۔

مثال:۔ اگر سونے کے زیورات میں مھجے ذکوة میں ایک گرام سونا دینا ہے تو اگر میں اس کی قیمت وہ لگاوں جو سنار خریدتا تو وہ فقیر اگرسونے کے اس ایک گرام خریدنا چاہے گا تو خرید نہیں پائے گا۔ اسے اپنے پاس سے پیسے ملانے پڑے گے۔

تو میں سمجھتا ہوں یہاں پے بھی صدقة الفطر والا مسلہ منطبق کرنا چاہیے۔

فتاوی مفتی محمود میں ہے [جواب] کہ

آپ کے پاس جو سونا یا چاندی ہے بازار میں ایسے سونے اور چاندی کا جو نرخ ہے یعنی جس قیمت پر دکاندار فروخت کرتے ہیں وہ قیمت لگا کر ذکوة دے۔۔۔(              فتاوی مفتی محمود جلد دہم صفہ ۱۳۴ باب الحظروالاباحہ،سن اشاعت ۲۰۰۸ مطبع اشتیاق اے ***)

مفتی صاحب رح کی اس تحقیق سے اتفاق کرتا ہوں لکین اس میں حوالہ نہیں دی  حوالہ درکار ہے۔

بعض لوگ اسے عرف کا مسلہ بتاتے ہے کہ اگر آپ کے ملک میں سنار کی قیمت خرید پر ہے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر قیمت فروخت پر ہے تو بھی ٹھیک ہے۔ تو مھجے کچھ سمھج میں نہیں آیا اگر عرف میں لوگ غلط کرتے رہے ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کی طرف جواب کا منتظر۔ جزاک اللہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سونے کے زیورات کی زکوٰة کے مسئلے میں سنار کی قیمت خرید کا اعتبار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ زیورات کی زکوٰة کے مسئلے میں بعینہ اسی زیور کی قیمت لگانا ضروری  ہے، جو معطی (زکوٰة ادا کرنے والے) کی ملکیت میں ہیں۔

ظاہر ہے کہ بعینہ اسی زیور کی قیمت معلوم کرنے کے لیے کہ جو معطی کی ملک میں ہے،  ہم یہی کر سکتے ہیں کہ ہم یہ معلوم کریں کہ مارکیٹ میں سنار بعینہ اس زیور کو کتنے میں خریدے گا۔ اور جتنے میں سنار اس زیور کو خریدنے کے لیے تیار ہو گا، یہ اس زیور کی قیمت خرید ہی ہو گی، اور اسی لحاظ سے معطی زکوٰة ادا کرنے کا پابند ہو گا۔ اس جیسا زیور مارکیٹ میں سنار جس قیمت پر فروخت کرتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ قیمت اس زیور کی نہیں، جو معطی کی ملک میں ہے، اور نہ ہی معطی اس قیمت کے لحاظ سے زکوٰة ادا کرنے کا پابند ہے، البتہ وہ اپنی خوشی سے اس کے لحاظ سے زکوٰة ادا کر دے، تو یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔ لہذا زیور کی زکوٰة کے مسئلے میں ہم سنار کی قیمت خرید کا اعتبار کرتے ہیں، نہ کہ سنار کی قیمت فروخت کا۔

جبکہ صدقة الفطر کے مسئلے میں قیمت کا تعلق بعینہ کسی خاص گندم سے نہیں ہوتا کہ جس کی وجہ سے ہم بعینہ اسی خاص گندم کی قیمت کا اعتبار کریں۔  اور عموماً دکاندار کی قیمت فروخت، قیمتِ خرید سے زیادہ ہونے کی وجہ سےانفع للفقراء   بھی ہے، اور فریضہ کی ادائیگی کے لحاظ سے احوط بھی ہے۔ اس لیے صدقة الفطر کے مسئلے میں ہم دکاندار کی قیمتِ فروخت کا اعتبار کرتے ہیں، نہ کہ قیمت خرید کا۔

شامی میں ہے:

(والمعتبروزنهما أداءً) أی من حیث الأداء یعنی یعتبر أن یکون المؤدٰی قدرالواجب عندالامام والثانی، وقال زفر  تعتبر القیمة، واعتبر محمد  الأنفع للفقراء. فلو أدی عن خمسة جیدة خمسة زیوفاً قیمتها أربعة جیدة، جاز عندهما وکره، وقال محمد  وزفر لایجوز حتی یؤدي الفضل…ولو کان له إبریق فضة وزنه مائتان، وقیمته ثلاثمائة إن أدی خمسة من عینه فلاکلام، أو من غیره جاز عندهما خلافاً لمحمد وزفر، إلا أن يؤدي الفضل ۔۔۔۔وأجمعوا أنه لو أدی من خلاف جنسه، اعتبرت القیمة حتی لو أدی من الذهب ما تبلغ قیمته خمسة دراهم من غیر الإناء، لم یجز في قولهم لتقوم الجودة عندالمقابلة بخلاف الجنس، فإن أدی القیمة وقعت عن القدر المستحق ۔(ص:70 ۔269،ج:3طبع دارالمعرفة،بیروت)

بدائع میں ہے:

وجملة الکلام فیه:أن مال الزکوٰة لا یخلو إما أن یکون عیناً وإما أن یکون دیناً، والعین لا یخلو إما أن تکون مما لایجري فیه الربا کالحیوان والعروض، و إما أن یکون مما یجري فیه الربا کالمکیل والموزون ۔۔۔۔ و إن کان مال الزکاة مما یجري فیه الربا من الکیلی والوزنی، فإن أدی ربع عشر النصاب، یجوز کیفما کان، لأنه أدی ما وجب علیه وإن أدی من غیر النصاب، فلا یخلو إما أن کان من جنس النصاب، و إما أن کان من خلاف جنسه، فإن کان المؤدی من خلاف جنسه بأن أدی الذهب عن الفضة، أو الحنطة عن الشعیر، یراعی قیمة الواجب بالاجماع، حتی لو أدی أنقص منها لا یسقط عنه کل الواجب، بل یجب علیه التکمیل، لأن الجودة فی أموال الربا متقومة عند مقابلتها بخلاف الجنس۔

وإن کان المؤدی من جنس النصاب فقد اختلف فیه علی ثلاثة أقوال:

قال أبوحنیفة وأبویوسف رحمهما الله أن المعتبر هو القدر لا القیمة،وقال زفررحمه الله المعتبر هو القیمة، لا القدر. وقال محمد رحمه الله المعتبر ما هو أنفع للفقراء ۔ (ص:146.47 ،ج:2)۔۔۔۔۔۔ والصحیح اعتبار أبی حنیفة رحمه الله وأبی یوسف رحمه الله لأن الجودة فی الأموال الربویة ،لا قیمة لها عند مقابلتها بجنسها لقول النبیﷺ ” جیدها وردیئها سواء” إلا أن محمداًیقول أن الجودة متقومة حقیقة وإنما سقط اعتبار تقومها شرعاً لجریان الربا والربا اسم لمال یستحق بالبیع ولم یوجد والجواب:أن المسقط لاعتبارالجودة وهو النص مطلق فیقتضی سقوط تقومها مطلقاً إلا فیما قید بدلیل۔(ص:147،ج:2)

وفي البحر:

ذکر فی الجامع:لوفسدت الحنطة بما أصابها حتی صارت قیمتها مائة فانه یؤدي درهمین ونصفاً بلاخلاف إذا اختار القیمة، لأنه هلک جزء من العین، فسقط ماتعلق به من الواجب، وإن زادت في نفسها قیمة، فالعبرة لیوم الوجوب۔(ص:386،ج:2)

وفي الفتاوی الهندية:

المال الذی تجب فیه الزکاة إن أدی زکاته من خلاف جنسه، أدی قدر قیمة الواجب اجماعاً، وکذا إذا أدی زکاته من جنسه، وکان مما لایجري فیه الربوٰ، وأما إذا أدی من جنسه، وکان ربویاً، فأبوحنیفة وأبو یوسف رحمهما الله یعتبران  القدر لا القیمة۔ (ص :180 ،ج:1)۔ فقط والله تعالیٰ أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved