• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"شادی فنڈ” میں مستحق زکوٰة لڑکوں کو شریک کرنا

زکوٰة سے قائم کیا گیا "شادی فنڈ” صرف لڑکیوں کی کفالت کے لیے ہوتا ہے، یا اس سے مستحق لڑکے بھی مستفید ہو سکتے ہیں؟ محترم مفتی صاحب جمعیت پنجابی سوداگران دہلی شاخ لاہور برادری کا ایک فلاحٰ اور رفاہی ادارہ ہے، اور اس کی آمدنی میں زکوٰة

سے ملنے والی خطیر رقم بھی شامل ہے، یہ رقم مختلف مدات میں استعمال ہوتی ہے، جس میں ہسپتال میں علاج معالجہ، بچوں کی اسکول و کالج کی فیس اور دیگر تعلیمی اخراجات، بیواؤں اور مستحق لوگوں کے ماہانہ وظائف اور شادی کے لیے جہیز فنڈ یا جہیز کا سامان بھی دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں شادی فنڈ صرف اور صرف لڑکیوں کو دیا جاتا ہے۔ آپ سے اپنی رہنمائی کے لیے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ہمارے دین میں صرف لڑکیاں زکوٰة کی مستحق ہیں؟ اگر کوئی لڑکا محض اس وجہ سے شادی نہ کر سکے کہ وہ شادی کے اخراجات برداشت نہ کر سکتا ہو، اور اس وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہو جائے تو کیا یہ بات مناسب ہو گی؟ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی لڑکی کی شادی کا سن کر جو ہمدردی کا جذبہ ابھرتا ہے، اور ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق کسی نہ کسی درجے میں کچھ نہ کچھ رقم یا سامان دینے پر تیار ہو جاتا ہے، جبکہ لڑکے کی شادی کی خبر پر ذہن میں یہ تصور  ابھرتا ہی نہیں کہ اس کو کسی مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

مندرجہ بالا حالات کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ ہمارے ادارے کو کسی مستحق زکوٰة لڑکے کو شادی فنڈ سے مدد کرنا چاہیے یا نہیں؟ اور آئندہ کے لیے اس سلسلے میں قانون سازی کرنا چاہیے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ادارے کا زکوٰة کے "شادی فنڈ” کو صرف لڑکیوں تک محدود کرنا بھی جائز ہے۔ اور ادارہ اس کا فیصلہ کر لے کہ آئندہ مستحق لڑکوں کو بھی اس میں شریک کریں گے، تویہ بھی جائز ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved