• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ماربل میں زکوٰة کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں ایک پہاڑ ہے ۔جس سے ماربل نکلتا ہے، اور  وہ پہاڑ چند گھروں کی ملکیت ہے ۔اور ماربل حکومت والے نکالتے ہیں ،اور حکومت کی طرف سے فی گھر ماہانہ ایک لاکھ روپیہ ملتا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ ان پیسوں میں زکوة ہے یا نہیں ؟اور اس ماربل والے پہاڑ کو معادن میں شمار کرینگے یا رکاز میں یا مطلقا اس پر زکوة و اجب ہو گی ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1:  ان پیسوں میں زکوة آئے گی بشرطیکہ سال کے اول و آخر میں صاحب نصاب ہوں اور یہ نصاب درمیان میں بالکل ختم نہ ہو گیا ہو۔

2 : اس پہاڑ کو نہ معدن میں شمار کریں گے ،نہ ہی رکاز میں ، اور نہ ہی اس نکلنے والے ماربل پر زکوة واجب ہے۔ البتہ جو لوگ اس ماربل کو خرید کر آگے فروخت کریں گے، ان پر اس ماربل کی زکوٰة آئے گی۔ کیونکہ اس صورت میں یہ ماربل مالِ تجارت بن جائے گا۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے :

و لیس فی الفیروزج الذی یوجد فی الجبال خمس لقوله علیه السلام "لا خمس فی الحجر ” و فی البنایة شرح الهدایة عن عکرمة قال” لیس فی حجر اللؤلؤ و لا حجر الزمرد زکاة الا ان یکون للتجارة،

فان کان للتجارة ففیه الزکاة”  هدایة مع شرحه البنایة (ص485 ج3) فقط والله تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved