- فتوی نمبر: 8-183
- تاریخ: 17 فروری 2016
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
میں اپنے والد صاحب کے ٹریکٹر کے ذریعے لوگوں کے مختلف کام مثلاً ہل چلانا، بار برداری وغیرہ سر انجام دیتا ہوں، اور اس کے عوض پیسے وصول کرتا ہوں۔ ان پیسوں کی وصولی میں بعض اوقات کئی لوگوں کی جانب سے ایک دو سال کی تاخیر بھی ہو جاتی ہے۔ جبکہ بعض جگہوں سے فوراً وصولی ہو جاتی ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے:
1۔ یہ رقم دین کی کونسی قسم میں داخل ہے؟
2۔ جو پیسے مجھے ایک دو سال کی تاخیر سے ملتے ہیں اور ان کی مقدار نصاب زکوٰة سے زیادہ ہے، ان پر گذشتہ سالوں کی زکوٰة ہے یا نہیں؟ رقم وصول ہونے پر گھر کے اخراجات میں استعمال ہو جاتی ہے، اور جمع ہونے کی نوبت نہیں آتی۔ اور لوگوں کے ذمہ جو میری رقم ہے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور مال اور جائیداد نہیں ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
2۔1۔ مذکورہ صورت میں جو پیسے ایک دو سال کی تاخیر سے ملتے ہیں یہ دین ضعیف میں شامل ہیں۔ اور ان پر زکوٰة واجب نہیں ہے، نہ فی الحال واجب ہے اور نہ وصول ہونے پر واجب ہے۔
(و شرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) و هو في ملكه. (رد المحتار: 3/ 221)
و في الضعيف لا تجب ما لم يقبض نصاباً و يحول الحول بعد القبض عليه. (البحر الرائق: 2/ 363)
و أما الأجرة: ففيها ثلاث روايات، رواية بمنزلة دين الوسط، و في رواية بمنزلة دين الضعيف، و في رواية حكمها حكم الأصل، فإن كان الأصل للتجارة كانت بمنزلة دين القوي، و إن لم يكن أصلها للتجارة كانت بمنزلة دين الوسط، هذا كله قول أبي حنيفة رحمه الله. (الفتاوی الولوالجية: 1/ 186)
و لو آجر عبده أو داره بنصاب إن لم يكونا للتجارة لا تجب ما لم يحل الحول بعد القبض في قوله. (البحر الرائق: 2/ 364)
و الثاني إن كان الدين مالا مملوكاً أيضاً …. إلا أن الدين الذي هو بدل مال التجارة التحق بالعين في احتمال القبض لكونه بدل مال التجارة قابل القبض، و البدل يقام مقام البدل، و المبدل عين قائمة قابلة للقبض فكذا ما يقوم مقامه و هذا المعنی لا يوجد فيها ليس ببدل رأساً و لا فيما هو بدل عما ليس بمال، و كذا في بدل مال ليس للتجارة علی الرواية الصحيحة إنه لا تجب فيه الزكاة ما لم يقبض قدر النصاب و يحول عليه الحول بعد القبض لأن الثمن بدل ما ليس للتجارة فيقوم مقام المبدل و لو كان المبدل قائماً في يده حقيقة لا تجب الزكاة فيه، فكذا في بدله بخلاف بدل مال التجارة. (بدائع الصنائع: 2/ 90)
فتاویٰ الولوالجیہ میں اجرت کے بارے میں ذکر کردہ تین روایتوں میں سے ایک تو صراحتاً دین ضعیف ہونے کی ہے۔ اور دوسری روایت میں ’’حکمها حكم الأصل‘‘ کے الفاظ ہیں۔ اور آزاد آدمی چونکہ اصلاً نہ تو مال ہے اور نہ ہی محل بیع ہے۔ نیز اس کے منافع یعنی اجرت پر کسی کا کام کرنا بھی حقیقت میں مال نہیں ہے، اگرچہ اجارہ میں منافع کا قابل ضمان ہونا ثابت ہے، لیکن یہ خلاف قیاس اور ضرورت کی وجہ سے ہے۔ اس لیے آزاد آدمی کی اجرت یعنی مزدوری دین ضعیف میں شمار ہو گی۔ اس بات کی تائید بدائع الصنائع کی عبارت ’’و هذا المعنی لا يوجد فيما ليس ببدل رأساً و لا فيما هو بدل عما ليس بمال‘‘ سے بھی ہوتی ہے۔ نیز بحر رائق میں جب ایسے غلام اور گھر کی اجرت کو جو کہ تجارت کے لیے نہ ہو، دین ضعیف میں شمار کیا ہے، تو آزاد آدمی کی اجرت بطریق اولیٰ دین ضعیف قرار پائے گی۔ کیونکہ غلام اور مکان اگرچہ اپنی ذات کے اعتبار سے مال میں داخل ہیں ، جبکہ آزاد آدمی تو مال ہونے کی صلاحیت سے بالکل ہی خالی ہے۔
پراویڈنٹ فنڈ کے مسئلے میں حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ نے بھی احسن الفتاویٰ میں آزاد آدمی کی اجرت کو دین ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
اور ملازم اجیر ہے، فنڈ کی رقم مستاجر (حکومت) کے قبضہ میں رہتی ہے۔ اس پر اجیر کا قبضہ نہیں ہوتا۔ قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے بدستور حکومت پر دین ہے۔ لہذا اس پر زکوٰة نہیں، بلکہ آئندہ کے لیے زکوٰة فرض ہو گی، لأنه دين ضعيف كدين المهر. و لا يقاس علی دين الأجرة الأرض و الدار و العبد فإنه دين متوسط لأن منفعة المال مال من وجه و الحر ليس بمال فدين أجرته ليس بمقابل للمال الحقيقي و لا الحكمي علی أن الدين المتوسط أيضاً كالدين الضعيف في عدم وجوب الزكاة علی الراجح. (4/ 270) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط و الله تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved