- فتوی نمبر: 8-209
- تاریخ: 25 فروری 2016
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
***کے بھائی نے ایک زرعی زمین خریدی۔ ***کو اطلاع دی کہ ایسے ایسے زمین مل رہی ہے، لینی ہے؟ اس نے کہا میرے لیے بھی لے لو۔ چنانچہ لے لی۔ ابھی وہ زمین ان کے استعمال میں ہے، اس پر کچھ سبزیاں وغیرہ اگائی جا رہی ہیں۔ جب زمین خریدی تھی
تو اس وقت کوئی خاص ذہن نہیں تھا کہ کیا کریں گے؟ بیچیں گے یا رکھیں گے۔ ابھی بھی پکا نہیں کہ رکھنی ہے یا بیچنی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اس زمین پر زکوٰة واجب نہیں۔ کیونکہ زمین پر زکوٰة واجب ہونے کے لیے چار شرطیں ہیں:
1۔ آگے فروخت کرنے کی نیت سے خریدی ہو۔
2۔ آگے فروخت کرنے کی نیت میں تردد نہ ہو کہ ہو سکتا ہے بیچ دیں، اور ہو سکتا ہے کہ خود رکھ لیں۔
3۔ آگے فروخت کرنے کی نیت سال بھر باقی بھی رہے۔
4۔ دوران سال اس زمین میں کچھ کاشت نہ کیا ہو۔
مذکورہ صورت میں ان چار میں سے کوئی شرط بھی موجود نہیں۔ لہذا اس زمین کی مالیت پر زکوٰة واجب نہیں۔
لو شری أرضاً خراجية ناوياً التجارة أو عشرية و زرعها …. لا يكون للتجارة لقيام المانع. و في الشامية تحت قوله (و زرعها) و مفهومه أنه إذا لم يزرعها تجب زكاة التجارة فيها لعدم وجوب العشر، فلم يوجب المانع، أما الخراجية فالمانع موجود و هي الثني و إن عطلت. (الدر المختار: 3/ 232)
لا زكاة فيما نواه للتجارة من نحو أرض عشرية أو خراجية لئلا يؤدي إلی تكرار الزكاة لأن العشر أو الخراج زكاة أيضا. (رد المحتار)
و شرطه أي شرط افتراض أدائها … أو نية التجارة في العروض … و لا بد من مقارنتها لعقد التجارة. (الدر المختار: 3/ 221)
لا يبقی للتجارة ما أي عبد مثلاً اشتراه لها فنوی بعد ذلك خدمته، ثم ما نواه للخدمة لا يصير للتجارة و إن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. (الدر المختار: 3/ 228) ………. فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved