• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رقم کے ڈوب جانے کی صورت میں زکوٰۃ لینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میری ایک عزیزہ ہیں جو کافی غریب ہیں میں نے اپنے طور پر معلومات حاصل کرکے ان کو مستحق زکوۃ سمجھ کر ایک دوست سے بات کی اس نے مجھے زکوۃ کی مد میں کچھ رقم دی۔ میں اس میں  ہر ماہ 5 ،6 ہزار روپے اس کو دے دیتا ہوں۔ اب ایک دو مہینے پہلے مجھے معلوم ہوا ہے که اس کے 1 لاکھ روپے کسی نے دینے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کے اس نے 6 سال پہلے ڈیڑھ لاکھ روپے اپنے بہنوئی کے پاس انوسٹ کیے تھے ان کا جم تھا کچھ عرصہ منافع آتا رہا پھر اس کا کاروبار ڈوب گیا اس کے بھی حالات تنگ ہو گئے۔ عزیزہ کا کہنا ہے کہ میرا یہی خیال تھا کہ میرے پیسے ڈوب گئے ہیں اب نہیں ملیں گے،مگر اس نے کہا تھا کہ آپ کے 1 لاکھ بنتے ہیں کبھی میرے پاس آئے تو میں دے دوں گا ۔ اب وہ باہر چلا گیا ہے اور ان کے حالات بہتر ہو گئے ہیں تو بہن نے یہ دیکھ کر کہ میری بہن کے حالات بہت تنگ ہیں ہر ماہ 5 ،10 ہزار کر کے دینا شروع کر دیے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جو رقم میں نے زکوۃ کے لیے دی تھی تو زکوۃ ادا ہو گئی ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کی دی ہوئی  زکوۃ  ادا ہو گئی ہے کیونکہ آپ کی عزیزہ کی جو رقم کاروبار میں لگی ہوئی تھی وہ رقم کاروبار میں خسارہ کی وجہ سے ڈوب گئی تھی اور اس کے ملنے کہ امید نہیں رہی تھی تو وہ رقم مال ضمار کے زمرے میں آتی ہے ۔اور ایسی رقم زکوۃ لینے سے مانع نہیں بنتی ۔

محیط البرہانی  (251/3)میں ہے:

و مال الضمار کل مال  بقي أصله في ملکه و لکن زال عن یده زوالاً لا یرجی عوده في الغالب.

بدائع میں ہے:

وتفسیر مال الضمار هو کل مال غیر مقدور الانتفاع به مع قیام أصل الملک  … ولأن المال إذا لم یکن مقدور الانتفاع به في حق المالک لا یکون المالک به غنیًّا(89/3) …….فقط والله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved