• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کچھ سونا اور کچھ نقدی پر زکوٰۃ دینے اور لینے کا حکم

استفتاء

جناب آپ کے علم میں ہے کہ اکثر دیہاتوں میں غریب لوگ رہتے ہیں جن میں عورتیں بنسبت مرد حضرات کے زیادہ غریب ہوتی ہیں لیکن ان عورتوں کے پاس روایتی طور پر اکثر ایک سے لے کر تین چار تولے سونا زیورات کی صورت میں ہوتا ہے جو آگے جا کر یعنی بڑھاپے کی عمر میں بیٹی یا بہو کو زیورات دے دیتی ہیں۔ مذکورہ عورتوں کے پاس نقدی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور اگر تھوڑی بہت نقدی ہوتی بھی ہے تو اس پر سال گذرنے کی نوبت بہت کم آتی ہے۔ مذکورہ عورتیں کچے مکانوں میں رہتی ہیں، ہر قسم کی بنیادی سہولیات سے محروم رہتی ہیں ان کے رہن سہن اور روز مرہ کی زندگی سے بھی ان کی غربت کا پتہ آسانی سے چلتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درج بالا بیان کی روشنی میں:

1۔ کیا ان عورتوں پر مذکورہ سونے کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے یا نہیں؟

2۔ کیا مذکورہ عورتیں دوسروں سے زکوٰۃ قبول کر سکتیں ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ان عورتوں پر مذکورہ سونے کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ سال کے شروع اور آخر میں ان عورتوں کی اپنی ملکیت میں اس سونے کے ساتھ کچھ پیسے بھی ہوں خواہ وہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔ مذکورہ صورت میں پیسوں کا پورا سال ملکیت میں رہنا ضروری نہیں۔

2۔ مذکورہ  عورتیں دوسروں سے زکوٰۃ نہیں لے سکتیں۔

في بدائع الصنائع (2/ 106):

فأما الزكاة في الذهب و الفضة فإنما (تجب لعينها) دون القيمة و لهذا لا يكمل به القيمة حالة الإنفراد و إنما يكمل بالوزن كثرت القيمة أو قلت، بأن كانت رديئة، و لنا ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم بضم الذهب إلى الفضة و الفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة و لأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما و هو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة و الثمنية فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد و لهذا اتفق الواجب فيهما و هو ربع العشر عن كل حال و إنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.

و أما عند الاختلاف فيختلف الواجب و إذا اتحد المالان معنى فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة و لهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة و لا يعتبر اختلاف الصورة كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً و أقل من مائتي درهم و له عروض للتجارة و نقد البلد في الدراهم و الدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب و إن شاء كمل به نصاب الفضة و صار كالسود مع البيض.

و فيه أيضاً (2/ 158):

و أما الغنا الذي يحرم به أخذ الصدقة و قبولها: فهو الذي تجب به صدقة الفطر و الأضحية و هو أن يملك من الأموال التي لا تجب فيها الزكاة ما يفضل عن حاجته و تبلغ قيمته الفاضل مائتي درهم من الثياب و الفرش و الدور و الحوانيت و الدواب و الخدم زيادة على ما يحتاج إليه كل ذلك للابتذال و الاستعمال لا للتجارة و الإسامة فإذا فضل من ذلك ما يبلغ قيمته مائتي درهم وجب عليه صدقة الفطر و الأضحية و حرم عليه أخذ الصدقة.

و فيه أيضاً (2/ 100):

و لنا: أن كمال النصاب شرط وجوب الزكاة فيعتبر وجوده في أول الحول و آخره لا غير لأن أول الحول وقت انعقاد السبب و آخره وقت ثبوت الحكم فأما وسط الحول فليس بوقت انعقاد السبب و لا وقت ثبوت الحكم فلا معنى لاعتبار كمال النصاب فيه إلا أنه لا بد من بقاء شيء من النصاب الذي انعقد عليه الحول ليضم المستفاد إليه.

فتاویٰ عثمانی (2/ 70) میں ہے:

’’پانچ تولہ سونے کے ساتھ اگر ایک روپیہ کے برابر نقدی بھی ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے اور اتنی نقدی تو ہوتی ہی ہے۔ ہاں اگر واقعتاً ایک روپیہ کے برابر بھی نقدی نہ ہو تو بے شک صرف سونے پر زکوٰۃ اس وقت تک نہ ہو گی جب تک وہ ساڑھے سات تولہ نہ ہو جائے۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved