- فتوی نمبر: 9-130
- تاریخ: 29 جولائی 2016
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی آدمی زکوٰۃ کی رقم ایزی پیسہ یا کسی بھی ایسے طریقے سے کسی دوسرے شہر ارسال کرنا چاہے جس طریقے میں رقم کی کٹوتی ہوتی ہے، اب اگر وہ کٹوتی زکوٰۃ کے روپوں سے ہی ہو تو دریافت طلب چیز یہ ہے کہ وہ کٹوتی کی مقدار روپوں کی زکوٰۃ میں ادا ہوئی یا نہیں۔ مثلاً 5000 روپے زکوٰۃ کے ہیں، ارسال کرنے پر 240 روپے کٹوتی ہوتی ہے۔ اگر انہی 5000 میں سے 240 روپے کٹوتی کیے جائیں تو 240 زکوٰۃ میں شمار ہونگے یا ان کی زکوٰۃ الگ سے دینا پڑے گی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں زکوٰۃ کی رقم بذریعہ ایزی پیسہ کسی دوسرے شہر ارسال کرنے میں جو کٹوتی ہوتی ہے وہ زکوٰۃ کی مد میں شمار نہ ہو گی کیونکہ یہ رقم کسی مستحق زکوٰۃ کی ملکیت اور قبضہ میں نہیں گئی۔
فتاویٰ دار العلوم دیوبند (6/ 217) میں ہے:
’’بذریعہ منی آرڈر بھیجنا زکوٰۃ کے روپے کا درست ہے مگر فیس منی آرڈر اپنے پاس سے دینی چاہیے‘‘۔
فتاویٰ رحیمیہ (7/ 172) میں ہے:
’’سوال: ایک شخص اپنے خویش و اقارب کے لیے ہندوستان زکوٰۃ کے پیسے بھیجتا ہے آج کل روپوں کے بھیجنے میں کمیشن دینا پڑتا ہے تو زکوٰۃ میں سے دے سکتے ہیں؟ مثلاً زکوٰۃ کے ہزار روپے بھیجیں تو مرسل الیہ کو 800 روپے پہنچتے ہیں تو یہ 200 روپے زکوٰۃ کے ہوں گے یا مرسل کی اصل رقم قرار دیں گے؟
الجواب: مذکورہ دو سو روپے زکوٰۃ کے شمار میں نہ ہوں گے۔ لہذا دو سو اور ادا کرنے ہوں گے۔‘‘
اور دوسری جگہ (7/ 177) ہے:
’’پارسل کے کرایہ میں زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، اس لیے کہ زکوٰۃ میں تملیک مستحق بلا عوض
شرط ہے اور وہ شرط یہاں مفقود ہے‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved