• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

LPG گیس کے کاروبار میں زکوٰۃ کا مسئلہ

استفتاء

1۔ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ہمارا LPG گیس کا کاروبار ہے اور ہم دکانداروں کو سپلائی دیتے ہیں، تو دکانداروں سے ہم نے پیسے لینے ہوتے ہیں کسی سے 500000 روپے، کسی سے 700000 روپے تو آیا ان پیسوں پر زکوٰۃ آئے گی مثلا ہمارے پاس سال بعد 50 لاکھ کیش ہوتا ہے نقدی کی صورت میں اور 50 لاکھ لوگوں سے لینا ہوتا ہے یعنی دکانداروں سے تو اب ایک

کروڑ پر زکوٰۃ دینی ہو گی یا صرف پچاس لاکھ پر۔

2۔ اور ہمارے پاس سلنڈر سپلائی دینے کے لیے 3 مزدا ٹرک ہیں، ان کی زکوٰۃ دینی ہو گی؟

3۔ اسی طرح ہمارے پاس سلنڈر ہیں جن میں ہم پلانٹ سے گیس بھروا کے دکاندار کو سپلائی دے کر پھر سلنڈر واپس لے کر  بھرواتے ہیں یعنی سلنڈر ہمارے اپنے ہیں تو ان پر بھی زکوٰۃ آئے گی؟

وضاحت: ہمارا معاملہ یوں ہوتا ہے کہ ہم کسی کو گیس سپلائی کرتے ہیں تو گیس مارکیٹ کے اصول کے مطابق کچھ پیسے وہ روک لیتا ہے یعنی وہ ہمیں پیسے نہیں دیتا یا دیتا ہے تو تھوڑے دیتا ہے پھر جب ایک مقدار تک وہ پیسے پہنچ جاتے ہیں مثلاً تین لاکھ تک تو ہم اس کو کہتے ہیں کہ پہلے پیسے دو پھر مال ملے گا تو وہ کہتا ہے کہ آپ مال دو میں اس مال کے پیسے نقد دوں گا باقی آہستہ آہستہ کر کے دے دوں گا، لیکن وہ تین لاکھ کے قریب رہتے ہیں کیونکہ کبھی وہ پیسے کم دیتا ہے یا پیسے پورے دیتا ہے تو مال زیادہ لے لیتا ہے اب جب ہم اس سے لین دین ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہم اس کو کہتے ہیں، تو یا تووہ سارے دے دیتا ہے یا ایک دو قسطوں میں دے دیتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ جو پیسے لوگوں سے لینے ہیں اور ان کے ملنے کی امید بھی ہے تو ان کی زکوٰۃ بھی آپ کے ذمے ہے خواہ ہر سال ان کی زکوٰۃ اپنے پاس سے دیتے رہیں یا جب وہ مل جائیں تو اس وقت تمام سالوں کی زکوٰۃ دیدیں۔

فتاویٰ شامی (3/ 217) میں ہے:

واعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة قوي ومتوسط وضعيف، فتجب زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين القوي كقرض وبدل مال التجارة).

2۔ جو آپ  کے پاس سلنڈر سپلائی دینے کے لیے تین مزدا ٹرک ہیں ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ فروخت کے لیے نہیں بلکہ آلات کی طرح ہیں۔

3۔ اسی طرح ان سلنڈروں پر بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی کیونکہ یہ بھی آلۂ تجارت ہیں مالِ تجارت نہیں۔ چنانچہ در مختار میں ہے:

(فلا زكاة على مكاتب ومديون للعبد بقدر دينه ولا في ثياب البدن وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذلك الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة… وكذلك آلات المحترفين.

وفي الشامية تحته: سواء كانت مما لا تستهلك عينه في الانتفاع كالقدوم والمبرد أو تستهلك. (3/170) ………………………………………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved