• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نابالغ طالبعلم کو زکوٰۃ کی مد میں کتابیں دینا

استفتاء

کیا حکم ہے شریعت محمدی ﷺ کا درج ذیل مسئلہ کے باب میں کہ ایک غریب آدمی ہے جس کا بیٹا مدرسے کا طالب علم ہے، جس کی عمر تقریباً 11۔ 12 سال ہے، اس کو کتابوں کی ضرورت ہے۔ ایک آدمی اس کو زکوٰۃ کی رقم سے کتابیں دینا چاہتا ہے۔

1۔ کیا اس نابالغ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے؟

2۔ کیا رقم کی بجائے کتابیں دینا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں اس نابالغ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

2۔ اور اسی طرح رقم کی بجائے کتابیں خرید کر دینا بھی جائز ہے۔

فتاویٰ شامی (3/359) میں ہے:

ودفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز. قوله: (إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء، وإلا فلا يصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير.

فتاویٰ شامی (3/341) میں ہے:

ويشترط أن يكون الصرف ( تمليكا ) لا إباحة …. وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق، إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالاب والوصي وغيرهما، ويصرف إلى مراهق يعقل الاخذ كما في المحيط.

فتاویٰ عالمگیری (1/190) میں ہے:

نوى الزكاة بما يدفع لصبيان أقربائه أو لمن يأتيه بالبشارة إياه بالباكورة أجزءه.

مبسوط سرخسی (2/270) میں ہے:

قال (ويجزيه أن يعطي من الواجب جنساً آخر من المكيل أو الموزون أو العروض أو غير ذلك بقيمته) وهذا عندنا وقد بيناه.

فتاویٰ محمودیہ (9/537) میں ہے:

’’سوال: زکوٰۃ کا روپیہ زکوٰۃ کے مستحق بچوں کو دے کر اسے مالک بنا دینے سے زکوٰۃ ادا ہو گی یا نہیں؟

جواب: اگر وہ قبضہ مالکانہ کرنے کے اہل ہوں اور سمجھدار ہوں تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔‘‘

فتاویٰ دار العلوم دیوبند (6/165) میں ہے:

’’سوال: نابالغ کو زکوٰۃ دی جاتی ہے یا نہیں؟

جواب: نابالغ محتاج کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے۔‘‘

فتاویٰ دار العلوم دیوبند (6/139) میں ہے:

سوال: زکوٰۃ کے روپے سے طلبہ کو کتابیں یا پارے دینا درست ہے یا نہیں؟

جواب: جائز ہے۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved