• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دوران اذان سحری کھانے کا حکم

استفتاء

1۔ دوران اذان سحری کرنے کا کیا حکم ہے؟ لوگ بالعموم اذان کے دوران بھی کھاتے پیتے رہتے ہیں۔

سحری بند کرنے کی غرض سے صبح صادق سے پہلے اذان دینے کا حکم

2۔ اس قباحت سے بچانے کے لیے کیا ایسا کرنے کی گنجائش ہے کہ اذان کو صبح صادق سے مقدم کر دیا جائے تاکہ لوگوں کے روزے بلا کراہت درست ہو جائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ اگر اذان سحری کا وقت ختم ہونے کے بعدشروع ہوئی ہو تو دوران اذان سحری کھانا جائز نہیں۔ ایسا کرنے سے روزہ نہ ہو گا۔

2۔ ایسا کرنا متعدد وجوہ سے درست نہیں:

i۔  اذان کا مقصد اصلی نماز کے وقت کے داخل ہونے کی اطلاع ہے اور ایسا کرنے میں یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

ii۔  موجودہ دور میں یہ طریقہ عموماً مفید بھی نہیں کیونکہ موجودہ دور میں گھڑی گھنٹوں کی کثرت، اور اوقات سحر و افطار کے نقشہ جات، ٹی وی، ریڈیو، موبائل فون، اخبارات کے ذریعہ سحر و افطار کے اوقات معلوم کرنے کی سہولت اتنی عام ہو گئی ہے کہ شاید ہی کوئی آدمی ایسا ہو  جو وقت سے پہلے دی گئی اذان کو سن کر سحری کرنا بند کر دے ورنہ عموماً مذکورہ بالا ذرائع کی موجودگی میں لوگ یہی کہیں گے کہ اذان وقت سے پہلے ہوئی ہے لہذا ابھی کھاتے پیتے رہو۔

في البدائع (1/ 381):

و أما بيان وقت الأذان  الإقامة فوقتها ما هو وقت الصلوات المكتوبات، حتى لو أذن قبل دخول الوقت لا يجزئه و يعيده إذا دخل الوقت في الصلوات كلها في قول أبي حنيفة و محمد، و قد قال أبو يوسف رحمه الله أخيراً: لا بأس بأن يؤذن للفجر في النصف الأخير من الليل و هو قول الشافعي رحمه الله، و احتجا بما روى سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه رضي الله عنهم: ”أن بلالاً كان يؤذن بليل“. و في رواية قال: ”لا يغرنكم أذان بلال عن السحور فإنه يؤذن بليل“. و لأن وقت الفجر مشتبه و في مراعاته بعض الحرج بخلاف سائر الصلوات. و لأبي حنيفة و محمد رحمهما الله ما روى شداد مولى عياض بن عامر أن النبي صلى الله عليه و سلم قال لبلال: ”لا تؤذن حتى يستبين لك الفجر هكذا و مدّ يده عرضاً“. و لأن الأذان شرع للإعلام بدخول الوقت، و الإعلام بالدخول قبل الدخول كذب و كذا هو من باب الخيانة في الأمانة و المؤذن مؤتمن على لسان رسول الله صلى الله عليه و سلم و لهذا لم يجر في سائر الصلوت، و لأن الأذان قبل الفجر يؤدي إلى الضرر بالناس لأن ذلك وقت نومهم خصوصاً في حق من تهجد في النصف الأول من الليل فربما يلتبس الأمر عليهم و ذلك مكروه.

iii۔ آجکل اذانیں عموماً لاؤڈ اسپیکر پر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ایک مسجد و محلہ کی اذان دوسری مسجد اور محلے والے بآسانی سن لیتے ہیں۔ اور کسی ایک مسجد والوں کے اذان کو وقت سے پہلے دینے سے یہ مسئلہ حل نہ ہو گا، اور ساری مسجدوں والے اذان وقت سے پہلے دینا شروع کر دیں یہ عادتاً ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved