• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بال کاٹنے کے لیے الیکٹرانکس مشینوں کے استعمال کا حکم

استفتاء

  1.   حالتِ احرام میں بال کاٹنے کے لیے الیکٹرانکس مشین قینچی کے حکم میں آئے گا یا بلیڈ کے حکم میں؟
  2. بال کٹوانے کی صورت میں تشبہ بالرجال کی وجہ سے عورت کے لیے عمرے کا حکم
  3.  زیادہ عمروں کی وجہ سے اگر کسی خاتون کے بال اتنے چھوٹے ہو جائیں کہ مردوں سے مشابہت لازم آتی ہو، تو آیا مزید عمرہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے قصر کا حکم معاف ہو جائے یا اس کے لیے مزید عمرہ کرنا ممنوع ہو گا؟سعی کے بعد دو رکعت نوافل کا حکم
  4.  کتب احناف میں سعی کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا مستحب لکھا گیا ہے، لیکن اس کے لیے جس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے، اس میں ’’إذا فرغ من سعيه‘‘ کے الفاظ ہیں، جیسے کہ فتح القدیر (2/ 471، رشیدیہ) میں ہے۔ علامہ ابن ہمام نے اس کو ابن ماجہ سے نقل کیا ہے۔ لیکن ابن ماجہ ’’باب الرکعتین بعد الطواف، رقم الحدیث: 2958‘‘ میں ’’من سبعه‘‘ کے الفاظ ہیں، جس سے مراد طواف ہے۔ تو سعی کے بعد جو دو رکعت شکرانہ کے نوافل کا استحباب منقول ہے، اس کا ثبوت کہاں سے ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ بال کاٹنے کی الیکٹرانکس مشینیں دو طرح کی ہیں۔ بعض وہ ہیں جن کے اندر کے بلیڈ قینچی کی طرح کام کرتے ہیں۔ ایسی مشینوں کا حکم قینچی کا ہے۔ اور بعض مشینیں ایسی ہیں جن کے اندر کے بلیڈ استرے کی طرح کام کرتے ہیں۔ ایسی مشینوں کا حکم استرے اور بلیڈ والا ہے۔ تاہم اگر کسی مشین کے بارے میں اشتباہ ہو تو اس سے حلق کرانے میں وہ لوگ احتیاط کریں جن کے لیے حلق ضروری ہے، یعنی جن کے بال ایک پورے سے کم ہیں۔

2۔ عمرہ کرنا چونکہ ایک مسنون عمل ہے، اور عورت کا اس حد تک بال کٹوانا کہ تشبہ بالرجال کی نوبت آ جائے، مکروہ تحریمی ہے۔ لہذا ایسی عورت کے لیے مزید عمرہ کرنا ممنوع ہو گا۔

3۔    (i): اگر اس روایت میں ’’من سعيه‘‘ کے بجائے ’’من سبعہ‘‘ کے الفاظ بھی ہوں، تو پھر بھی اس روایت سے اس استحباب پر استدلال کرنا درست ہے۔ کیونکہ ’’من سبعہ‘‘ کے الفاظ جس طرح طواف کے ساتویں چکر پر صادق آتے ہیں، اسی طرح سعی کے ساتویں چکر پر بھی صادق آتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض روایات میں خود سعی پر طواف کا لفظ بھی بولا گیا ہے۔ چنانچہ نسائی شریف میں ہے:

عن جابر رضي الله عنه قال طاف رسول الله صلی الله عليه و سلم بالبيت سبعاً …. ثم ذهب … فبدأ بالصفا … ثم مشی حتی أتی المروة فصعد فيها … ثم دعا عليها بما شاء الله فعل هذا حتی فرغ من الطواف. (نسائي: 2/ 39)

اس حدیث میں ’’ حتی فرغ من الطواف ‘‘ سے مراد سعی ہے۔

(ii)۔ اسی حدیث میں ’’نسائی شریف‘‘ کے ایک نسخہ میں ’’من سبعہ‘‘ کے بجائے  ’’من سعيه‘‘ کے الفاظ ہیں۔ ملاحظہ ہو ’’نسائی شریف 2/ 39، باب این یصلی رکعتی الطواف، مکتبہ المیزان‘‘۔ لہذا ہو سکتا ہے کہ ’’صاحب فتح القدیر‘‘ کے سامنے ’’ابن ماجہ‘‘ کا جو نسخہ تھا اس میں ’’من سبعہ‘‘ کے بجائے ’’من سعيه‘‘ کے الفاظ ہوں۔ لہذا جس نسخے میں ’’من سعيه‘‘ کے الفاظ ہیں، اس کے مطابق یہ استحباب خود نص سے ثابت ہے۔

(iii)۔  اگر یہ نص نہ بھی ہو تو استحباب کا ثبوت قیاس سے بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

و ندب ختمه بركعتين في المسجد كختم الطواف. و في الشامية قوله (و ندب الخ) ذكره في الخانية وغيرها، قوله: «كختم الطواف» ليكون ختم السعي كختم الطواف كما أن مبدأهما بالاستلام. قال في الفتح و لا حاجة إلی هذا القياس، إذ فيه نص. (3/ 589، مكتبه رشيديه)

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ نص کے ہوتے ہوئے اس قیاس کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر خود اس نص کا ثبوت مشکوک ہو جائے، تو پھر اس استحباب کو ثابت کرنے کے لیے یہ قیاس صحیح بھی ہے اور کافی بھی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved