• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حجاج کرام کے لیے مطبخ سے کھانے کے عقد سے متعلق

استفتاء

صورت مسئلہ:

گذشتہ ایک سال سے سعودی حکومت نے حجاج کرام کے کھانے پینے کے انتظام کے لیے یہ قانون جاری کیا ہے کہ حجاج کا یہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں جتنے دن کا قیام ہوگا، اتنے دن ان کے کھانے کا عقد کسی ایسے مطبخ سے ہو جو حکومت سے منظور شدہ ہو۔ اس سے پہلے حجاج یا اپنا کھانے کا انتظام خود کرتے تھے یا گروپ والے ان کے کھانے کا انتظام کسی طریقہ سے کر لیتے تھے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پابندی نہ ہو تو حجاج کے کھانوں کی صفائی کی پوری تسلی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ نہ کھانا پکانے والوں کا پتہ کہ کون ہیں، کسی معدی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہیں، نہ کھانے پکانے کی جگہ کی کوئی نگرانی ممکن ہے کہ کھانا کہاں پک رہا ہے، کسی ہوٹل میں، کسی تہہ خانے میں، کسی صحن میں، ناپکے ہوئے کھانوں کی صلاحیت کا پتہ چل سکتا ہے، کہ مدت باقی تھی کہ نہیں وغیرہ، لیکن مطبخ میں یہ تمام نگرانیاں حکومت کے لیے ممکن ہیں، اور حج کے دنوں میں حکومت کے نمائندے باقاعدہ مطابخ کا گشت کرتے ہیں، کھانے کے سیمپل لیتے ہیں، ان کا لیبارٹری میں معائنہ کرتے ہیں، عمال کی حالت دیکھتے ہیں وغیرہ۔

اس قانون کے بعد تمام حجاج کے کھانے کا عقد کسی منظور اور معتمد مطبخ سے کرنا ضروری ہو گیا ہے، لہذا سرکاری کوٹے کے تمام حجاج کا کھانا انہی مطابخ میں تیار ہوتا ہے، اور پرائیویٹ گروپوں کے کھانے کا عقد بھی انہی مطابخ سے بنتا ہے، اگرچہ بعضے گروپ صرف عقد بنوا لیتے ہیں اور کھانا نہیں لیتے بلکہ کھانے کا اپنا ہی کوئی انتظام کرتے ہیں، وہ انتظام جیسا بھی ہو اگر معتمد مطبخ میں نہیں ہے تو خلاف قانون ہے۔

ایسی صورت میں پرائیویٹ گروپ والے کسی معتمد مطبخ سے صرف عقد بنوا لیتے ہیں اور اس عقد کی مد میں کچھ رقم دیتے ہیں، مثلاً اگر سو حاجیوں کا گروپ ہے تو فی حاجی دس ریال دے دیے، اس عقد کو یہاں کی اصطلاح میں عقد وہی کہتے ہیں، کیونکہ عقد میں تو مطبخ والے پوری مدت کے لیے تمام حاجیوں کا کھانا دینے کا التزام کرتے ہیں، اور گروپ والے اس کے مقابل پیسے دینے کا التزام کرتے ہیں، لیکن حقیقتاً ایسا کچھ ہوتا نہیں، بلکہ  اس کاغذ کو حاصل کرنے کے لیے ایک مطبخ دے دیا جاتا ہے، مطبخ کو عقد بنانے میں سوائے کاغذ، سیاہی کی قیمت اور ٹائپ کرنے کی محنت کے علاوہ کچھ نہیں کرنا پڑتا۔

پرائیویٹ گروپ والوں کا ایسا کرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں سے بعض تو یہ ہیں کہ خود کھانے کا انتظام کرنے میں ان کو بچت زیادہ ہوتی ہے، یا پہلے اتنے سالوں سے جن ہوٹل والوں سے کھانا لے رہے ہیں ان ہی سے لینے کی رغبت ہے، نئے لوگوں کا تجربہ کرنے کا خطرہ نہیں لینا چاہتے وغیرہ۔

سوال یہ ہے کہ کیا مطبخ والوں کو اس طرح کا عقد وہی بنانا جب کہ اس میں قانون کی خلاف ورزی بھی ہے، جائز ہے کہ نہیں؟ اور اگر بالفرض جائز ہو تو کیا اس کے مقابلہ میں کچھ عوض لینا جائز ہے کہ نہیں؟ بینوا توجروا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نہ یہ عقد جائز ہے اور نہ ہی اس کا کچھ عوض لینا جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved