• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ضرورت کو قرض کے بجائے کوئی چیز خرید کر اس کی رسید دے دینا پھر اس ضرورت مند کا رسید واپس کر کے دکاندار سے پیسے لینے کی ایک صورت

استفتاء

ایک بندہ *** میں ملازمت کرتا رہا، اس نے کچھ پیسے جوڑ لیے، اور ان کے ایک دوست کو پتہ چلا کہ ان کے پاس پیسے ہیں، اور اس دوست نے ان سے مطالبہ کیا کہ مجھے پیسے دے دو، اس نے کہا کہ میں ایک شرط پر دوں گا کہ کھاد لے کر دوں گا پانچ روپے فی بوری نفع لوں گا، ضرورت مند کو اشد ضرورت کی وجہ سے یہ شرط تسلیم کرنا پڑی۔ اس بندے نے کسی رشتہ دار کے اکاؤنٹ سے پیسہ بھجوایا، رشتہ دار نے پیسہ نکال کر ضرورت مند کو ساتھ لیا اور ایک کھاد کی دکان سے کھاد خریدی، اس کھاد والے سے ریٹ طے کر کے اس نے اتنے کا بل وصول کیا، اور بل ضرورت مند کو دے کر وہ چلا گیا، ضرورت مند نے دکاندار سے کہا کہ مجھے کھاد نہیں چاہیے، مجھے پیسہ چاہیے، کیونکہ یہ ہم نے ایک حیلہ کے طور پر یہ طریقہ اختیار کیا ہے، لہذا مجھے پیسہ واپس کر دیں، کیونکہ میں آپ کو کھاد بیچتا ہوں۔ دکاندار نے کہا میں فی بوری 20 روپے کم کے حساب سے لوں گا، یعنی دکاندار نے بل 1800 کے حساب سے بنا کے دیا اور ان سے واپسی 1780 کا لیا۔ اب فی بوری ضرورت کو شرط مسلمہ کی وجہ سے  2300 روپے میں پڑی، جو کہ اس نے *** والے کو چھ ماہ بعد 2300 روپے ادا کیے، ابھی تک *** والے کا اسی طرح لین دین لوگوں کے ساتھ چل رہا ہے۔

اب گاؤں کے لوگ اس بندے کے ساتھ مذکورہ کاروبار کی وجہ سے قربانی کا حصہ نہیں ڈالتے ہیں، کیونکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مذکورہ کاروبار سود کا کاروبار ہے۔ کیا مذکورہ کاروبار واقعی سودی کاروبار ہے؟ قرآن حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں کاروبار کا جو طریقہ ذکر کیا گیا ہے، یہ نا جائز ہے اور سودی طریقہ ہے۔ کیونکہ ذکر کردہ طریقہ میں ***  میں رہنے والے شخص کے رشتہ دار نے کھاد والے سے کھاد خریدی اور بل ضرورت مند کو دیدیا اور ضرورت مند نے 1780 روپے فی بوری کے حساب سے کھاد والے سے وصول کر لیے، اور چھ ماہ بعد اس ضرورت مند نے *** میں رہنے والے شخص کو فی بوری 2300 روپے ادا کیے۔

اس طریقہ میں متعدد خرابیاں ہیں:

1۔ *** میں رہنے والے شخص کے رشتہ دار نے اگرچہ کھاد والے سے کھاد خریدی تو ہے لیکن اس پر قبضہ نہیں کیا، اور منقولی اشیاءمیں قبضہ سے پہلے فروخت کرنا ناجائز ہے۔

2۔ *** میں رہنے والے شخص کے رشتہ دار نے ضرورت مند کو صرف بل دیا ہے، اور صرف بل دینے سے بیع نہیں ہوتی۔

3۔ ضرورت مند نے کھاد اولاً تو خریدی نہیں، صرف بل وصول کیا ہے، اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ضرورت مند نے کھاد خریدی ہے، تو پھر بھی ضرورت مند نے کھاد پر قبضہ نہیں کیا، اور قبضہ کرنے سے پہلے ہی دوبارہ کھاد والے کو یہ بوریاں بیچ دی۔ لہذا ضرورت مند کا یہ بیچنا بھی نا جائز ہوا، لہذا جب خرید و فروخت کا مذکورہ طریقہ درست نہیں تو یہ پیسوں کا لین دین پیسوں کے بدلے میں ہوا۔ اور ایسی صورت میں 1780 روپے کے عوض 2300 روپے وصول کرنا سودی معاملہ ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved