- فتوی نمبر: 8-198
- تاریخ: 18 فروری 2016
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
کیا پراویڈنٹ فنڈ کی رقم جس میں ہمارا اور کمپنی دونوں کا حصہ شامل ہے۔ اس پر زکوٰة دینا ضروری ہے؟ اگر ضروری ہے تو کیا ہر سال دینا ضروری ہے، یا جب وہ رقم مل جائے اس کے بعد زکوٰة کی ادائیگی لازم ہو گی؟
نیچے دیے گئے لنک میں ایک فتویٰ ہے (مفتی ابراہیم دسیائی صاحب سے تصدیق شدہ) جس میں کہا گیا ہے ’’پچھلے تمام سالوں کی بھی زکوٰة دینی ہو گی‘‘۔ مفتی صاحب اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
وضاحت مطلوب ہے: 1۔ (آپ نے لکھا ہے: ’’مزید یہ کہ مجموعی رقم کچھ ضروریات کے تحت نکلوائی بھی جا سکتی ہے‘‘)
اس سے متعلق مطلوب یہ ہے کہ یہ رقم صرف کسی ضرورت کے تحت نکلوا سکتے ہیں یا بلا ضرورت بھی نکلوا سکتے ہیں؟
2۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ کمپنی سے عقد (contract) کرتے وقت یہ بات طے کر لی جائے کہ پراویڈنٹ فنڈ کی وہ رقم جو ادارہ ہر ماہ تنخواہ کے بقدر ڈالتا ہے، وہ تو وصول کروں گا۔ البتہ اس پر جو سود (Interest) ہوتا ہے وہ نہ لگایا جائے؟
جواب وضاحت: 1۔ اگرچہ پراویڈنٹ فنڈ کی مجموعی رقم ریٹائرمنٹ کے وقت یا کمپنی چھوڑتے وقت ملازم کو دی جاتی ہے (جیسے پینشن) لیکن کچھ ضروریات کے تحت ملازمت کے دوران بھی یہ رقم نکلوائی جا سکتی ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ملازمت کے دوران اگر یہ رقم نکلوائی جائے تو مجموعی رقم کا 80 فیصد دیا جائے گا۔ مزید یہ کہ بلا ضرورت یہ رقم نہیں نکلوائی جا سکتی، صرف ضرورت کے تحت نکلوا سکتے ہیں، جس کی دو اقسام ہیں:
i۔ مکان کی تعمیر یا پلاٹ وغیرہ کی خریداری: اس صورت میں یہ رقم کمپنی کو واپس نہیں کرنی پڑتی۔
ii۔ شادی وغیرہ کے اخراجات کے لیے اگر رقم نکلوائی جائے تو وہ واپس کرنی پڑتی ہے۔
2۔ جی ہاں یہ ممکن ہے۔ کمپنی کا ایک فارم ہے، جسے فل کر کے ہم یہ درخواست کر سکتے ہیں کہ ہمیں پراویڈنٹ فنڈ پر سود نہیں چاہیے۔ اس فارم کو پُر کرنے کے بعد کمپنی اپنا حصہ اور ملازم کا حصہ جو جمع کرتی رہے گی، لیکن سال گذرنے کے بعد جو سود بنتا ہے وہ نہیں دے گی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر سابقہ سالوں کی زکوٰة واجب نہیں، نہ رقم وصول ہونے سے پہلے اور نہ رقم وصول ہونے پر۔ البتہ رقم وصول ہونے کے بعد دیکھا جائے گا کہ اگر سائل پہلے سے صاحب نصاب ہے تو اسی نصاب کے ساتھ اس رقم کی بھی زکوٰة ادا کرنی ہو گی۔ بشرطیکہ سابقہ نصاب کے سال پورا ہونے کے وقت پراویڈنٹ فنڈ کی رقم میں سے کل یا بعض موجود ہو۔ اور اگر سائل پہلے سے صاحب نصاب نہ ہو، اور یہ ملنے والی رقم نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر ہو تو سال گذرنے پر اس کی زکوٰة ادا کرنی پڑے گی۔ بشرطیکہ سال گذرنے پر اس میں سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر یا اس سے زائد رقم موجود ہو۔
یہ سب تفصیل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق ہے۔ جبکہ صاحبین رحمہما اللہ کے قول کے مطابق ہر سال اس رقم کی زکوٰة ادا کرنی پڑے گی۔ بشرطیکہ سائل یا تو پہلے سے صاحب نصاب ہو اور یا یہ رقم نصاب کے بقدر جمع ہو جائے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول میں گنجائش ہے۔ جبکہ صاحبین رحمہما اللہ کے قول میں احتیاط ہے۔ سائل اپنی مالی حالت کے پیشِ نظر جس قول پر چاہے عمل کر سکتا ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved