• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بینک سے سودی رقم کا ذاتی استعمال یا کسی کو ہدیہ یا صدقہ کرنے کی غرض سے نکلوانا

استفتاء

میں نے کافی عرصہ پہلے کچھ رقم بینک میں رکھوائی تھی، اور اس پر نفع لگتا رہا۔ اب میں نے اپنی اصلی رقم واپس لے لی، جبکہ دوسری سود والی رقم میرے اکاؤنٹ میں ہے جبکہ میں اس میں سے کچھ رقم نکلوا کر صدقہ بھی  کر چکا ہوں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کہ میں اس سودی رقم میں سے کچھ اپنے کسی ذاتی استعمال میں لگا سکتا ہوں یا اپنے والد صاحب کو ہدیہ یا صدقہ کر سکتا ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سودی رقم کو اپنے استعمال میں لانے یا والد صاحب کو ہدیہ کرنے یا کسی اور جگہ صدقہ کرنے کی غرض سے بینک سے لینا جائز نہیں۔

چنانچہ معارف القرآن (1/ 420) میں ہے:

’’اے ایمان والو!ایمان کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو اور حلال اور حرام اور جائز اور نا جائز کو ایک نہ بناؤ اور جو سود تمہارا لوگوں کے ذمہ  بقایا رہ گیا ہے اس کو تم چھوڑ دو، اگر تم اللہ کے اوامر اور نواہی پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہو۔ یعنی ممانعت سے پہلے جو سود لے چکے  اب ممانعت کے بعد جو سود بقایا رہ گیا ہے اس کے لینے اور مانگنے کی اجازت نہیں۔

ایمان کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جس چیز کی ممانعت کر دی جائے اس کو چھوڑ دیا جائے۔

فتاویٰ عثمانی (3/ 74-273) میں ہے:

’’سوال: سود لے کر غرباء میں تقسیم کر دیا جائے بعض کہتے ہیں کہ یہ حکومتی قانون کے خلاف ہے شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب: بینک سے سودی رقم کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ وصول ہی نہ کیا جائے۔ البتہ اگر کسی وجہ سے وصول ہو جائے تو اس کو غرباء میں صدقہ کر دیا جائے۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved