• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایک دو تولہ اور نقد، مال تجارت پر قربانی کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اکثر عورتوں کے پاس ایک تولہ سونا یا دو، تین بلکہ پانچ چھ تولہ تک سونا ہوتا ہے یعنی نصاب سے کم، عورت کے پاس ہزار پانچ سو روپیہ جیب خرچ کے لیے نقد رقم بھی موجود ہوتی ہے، لیکن یہ نقد رقم عورت کے پاس مستقل نہیں ہوتی اور سونے کا زیور مستقل ہوتا ہے۔

اکثر فتاویٰ جات میں علماء دیوبند نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ کسی  کے پاس دو تولہ یا ایک تولہ سونا ہے اور کچھ نقد رقم یا مالِ تجارت بھی ہے مثلاً  50- 100- 200- 1000 روپے بھی ہیں، اگر یہ نقد رقم ایک یا دو تولہ سونے کے ساتھ جمع کی جائے اور یہ چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے تو عورت پر زکوٰہ اور عید کی قربانی واجب ہے۔

ایک مفتی صاحب نے بتایا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے لیکن صاحبین کا یہ مذہب نہیں اور راجح قول صاحبین کا ہے۔ مہربانی فرما کر امام صاحب اور صاحبین کے دلائل ذکر کے ترجیح کا فیصلہ فرمائیں۔ اور یہ بھی وضاحت کریں کہ اکثر فتاویٰ جات میں مذکورہ مسئلہ درست ہے یا اس  ایک مفتی صاحب کا قول ؟

نوٹ: اس بات کی وضاحت بھی ضرور فرمائیں کہ عورت کے پاس جیب خرچ کے لیے جو نقد ہزار وغیرہ رقم ہوتی ہے قربانی کے مسئلہ میں اس کے لیے سال شرط ہے یا نہیں؟ یا قربانی کے وقت میں جو بھی مال موجود ہو وہی شرط ہے؟ وضاحت کریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ الف: ہمارے خیال میں وہ مسئلہ جو اکثر فتاویٰ جات میں مذکور ہے وہی درست ہے اور وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔ در مختار میں صرف امام صاحب رحمہ اللہ کا قول مذکور ہے، صاحبین کا نہیں۔ پھر یہ ضابطہ بھی ہے کہ عبادات میں امام صاحب کے قول کو ترجیح حاصل ہے۔ صاحبین کے قول کو ترجیح ہونے کا حوالہ ہمیں نہیں ملا۔

ب: قربانی کے لیے مال پر سال گذرنا شرط نہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved