- فتوی نمبر: 7-379
- تاریخ: 18 اگست 2015
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
بعد از آداب عرض ہے کہ زینتھ ایسوسی ایٹس رائے ونڈ میں موجود ایک جدید سلاٹرنگ کا پلانٹ ہے جو کہ 1998ء سے بیرون ملک گوشت کی ایکسپورٹ کے ساتھ ساتھ 2006ء سے لاہور میں لوکل سطح پر بھی تازہ گوشت کی سپلائی عوام تک بہم پہنچانے میں مصروف عمل ہے۔ دریں اثناء عوام کی سہولت کے لیے عوام ہی کی فرمائش پر "آسانی قربانی” کے عنوان سے 2007ء سے قربانی پراجیکٹ کا آغاز کیا، جس میں مقررہ قیمت کے تحت بکرا، چھترا، یا بچھڑا، بُک کرانے کی سہولت ہوتی ہے، جس کو بروز عید ذبح کر کے گوشت بنا کر اور پیک کر کے متعلقہ افراد تک پہنچانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس سارے پروجیکٹ میں علماء کرام، مفتیان عظام کی رہنمائی میں در پیش عوامل کو قابل عمل بنایا جاتا ہے۔
نیز یہ کہ ذبح کرنے سے قبل جانوروں کی nomination کا عمل ہوتا ہے، یعنی کہ کسٹمر کی بنکنگ کے حساب سے جانور کی تخصیص کی جاتی ہے، کہ اس نمبر کا جانور فلاں کی طرف سے ذبح کیا جا رہا ہے، ذبح سے لے کر پیکنگ تک فول پروف سسٹم بنایا گیا ہے۔ اس سارے عمل کی ہر موقع اور ہر پہلو پر کڑی نگرانی کی جاتی ہے، کیونکہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، ڈاکٹروں کی ایک ٹیم جانوروں کی صحت کے حوالے سے چیکنگ کے عمل کی ذمہ دار ہے، جو کہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی لاغر، کمزور، کم وزن یا بیمار جانور قربانی کی کھیپ میں شامل نہ ہو سکے، اسی طرح ایک عدد فاضل عالم کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں کہ اپنی نگرانی میں جانوروں کے دانت چیک کرنے سے لے کر جانوروں کی nomination اور شرعی اصولوں کے عین مطابق سلاٹرنگ بہ حساب بکنگ نمبر کرانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اس ہی ضمن میں چند سوالات کا سامنا ہے، گذارش ہے کہ ان کے جوابات تحریری شکل میں عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں:
1۔ بروز عید ہم عید کی نماز کے فوراً بعد ذبح کا عمل شروع کر دیتے ہیں، کیا سلاٹرنگ کے آغاز سے قبل اس بات کا اندازہ /یقین کر لینا ضروری ہے کہ جس کی طرف سے ہم قربانی کر رہے ہیں، اس نے عید کی نماز پڑھ لی ہے یا نہیں؟
2۔ اکثر لوگ بیرون ملک سے بکنگ کراتے ہیں، ان کے ہاں اور پاکستان میں عید کے ایام میں ایک روز کا فرق ہو جاتا ہے، اس ضمن میں کیا حکم ہو گا؟
3۔ دوران بکنگ ہی گاہک سے اگلی طرف سے اجازت نامہ کے طور پر دستخط کرائے جاتے ہیں، کیا ذبح سے قبل بھی فرداً فرداً اجازت ضروری ہو گی؟
4۔ دوران بکنگ ہم اپنے معزز کسٹمر سے ریٹ کے ساتھ ایک وزن کی تخصیص بھی کرتے ہیں، مثلاً بکرے کا گوشت پیکنگ کے بعد 12-14 کلوتک ہو گا۔ (الحمد للہ زینتھ کی کوشش ہوتی ہے کہ Under commitment over delivery کا کام کیا جائے، وزن مقررہ حد سے زیادہ ہی ہوتا ہے)، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ اگر وزن مقررہ حد سے بڑھ جائے تو کیا حکم ہے؟ اور اگر وزن مقررہ حد سے کم ہو جائے تو کیا حکم ہے؟
5۔ جانوروں کے سری پائے ہم گاہکوں کی اجازت سے مستحق افراد میں تقسیم کر دیتے ہیں، اس میں کوئی عذر تو نہ ہے؟
6۔ بڑے جانور میں بعض گاہک پورا جانور بک کرواتے ہیں اور بعض سات حصے دار ہوتے ہیں، بکنگ کے اعتبار سے ہی سلاٹرنگ کا عمل یقینی بنایا جاتا ہے، ایک جانور میں سات حصہ دار ہیں، اسی اعتبار سے ذبح کا عمل تو مکمل ہو گیا، گوشت کی بنوائی اور پیکنگ کے دوران بھی سات حصے الگ الگ پیک کیے جاتے ہیں، اگر کسی ورکر کی غلطی سے کسی کے حصے کا گوشت دوسرے کو چلا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
7۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ بکنگ کرانے والے اکثر گاہک بیرون ملک/ دوسری شہروں سے ہوتے ہیں، اور باقی لاہور شہر کے، زیادہ تر لوگ اپنے جانور دیکھنے نہیں آ پاتے، تو کیا قربانی سے قبل معزز کسٹمر کا اپنے جانور کو دیکھنا ضروری ہے؟
آپ کے سوالات کا جواب ترتیب وار مندرجہ ذیل ہے:
1۔ ضروری نہیں۔
2۔ جہاں جانور ہے وہاں قربانی کا وقت ہونا ضروری ہے۔ بکنگ کرانے والوں کے ہاں وقت کا ہونا ضروری نہیں۔
1۔ فتاویٰ شامی میں ہے:
المعتبر مكان الأضحية لا مكان من عليه. (رد المحتار: 9/ 529)
2۔ بدائع الصنائع میں ہے:
هذا إذا كان من عليه الأضحية في المصر والشاة في المصر ؛ فإن كان هو في المصر والشاة في الرستاق أو في موضع لا يصلى فيه وقد كان أمر أن يضحوا عنه فضحوا بها بعد طلوع الفجر قبل صلاة العيد فإنها تجزيه ، وعلى عكسه لو كان هو في الرستاق والشاة في المصر وقد أمر من يضحي عنه فضحوا بها قبل صلاة العيد فإنها لا تجزيه وإنما يعتبر في هذا مكان الشاة لا مكان من عليه ، هكذا ذكر محمد – عليه الرحمة – في النوادر وقال : إنما أنظر إلى محل الذبح ولا أنظر إلى موضع المذبوح عنه ، وهكذا روى الحسن عن أبي يوسف رحمه الله : يعتبر المكان الذي يكون فيه الذبح ولا يعتبر المكان الذي يكون فيه المذبوح عنه ، وإنما كان كذلك ؛ لأن الذبح هو القربة فيعتبر مكان فعلها لا مكان المفعول عنه .
وإن كان الرجل في مصر وأهله في مصر آخر فكتب إليهم أن يضحوا عنه روي عن أبي يوسف أنه اعتبر مكان الذبيحة فقال : ينبغي لهم أن لا يضحوا عنه حتى يصلي الإمام الذي فيه أهله ، وإن ضحوا عنه قبل أن يصلي لم يجزه ، وهو قول محمد – عليه الرحمة – وقال الحسن بن زياد : انتظرت الصلاتين جميعا وإن شكوا في وقت صلاة المصر الآخر انتظرت به الزوال فعنده لا يذبحون عنه حتى يصلوا في المصرين جميعا ، وإن وقع لهم الشك في وقت صلاة المصر الآخر لم يذبحوا حتى تزول الشمس فإذا زالت ذبحوا عنه .
( وجه ) قول الحسن أن فيما قلنا اعتبار الحالين حال الذبح وحال المذبوح عنه فكان أولى ولأبي يوسف ومحمد رحمهما الله أن القربة في الذبح ، والقربات المؤقتة يعتبر وقتها في حق فاعلها لا في حق المفعول عنه. (بدائع الصنايع: 4/ 213)
3۔ نہیں۔
4۔ وزن کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں وہ گوشت کسٹمر ہی کا ہو گا۔ البتہ اس کی پوری کوشش ہو کہ وزن کم نہ ہو۔ نیز آئندہ کے لیے کسٹمر سے تھوڑی بہت کمی بیشی کی اجازت بھی لے لیا کریں۔
5۔ ایسا کرسکتے ہیں۔
6۔ اگر یہ صورت ایک ہی گائے کے گوشت میں پیش آئے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور اگر مختلف گائیوں کے گوشت میں یہ صورت پیش آئے تو دونوں طرف کے کسٹمرز سے رابطہ کر کے ان سے کہہ دیا جائے کہ آپ اپنا حصہ فلاں کسٹمر کو ہدیہ کر دیں۔
7۔ کسٹمر کا اپنے جانور کو دیکھنا ضروری نہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved