- فتوی نمبر: 9-184
- تاریخ: 05 اکتوبر 2016
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جیسا کہ آپ حضرات کے علم میں ہے کہ قربانی کے نصاب سے متعلق کافی عرصے سے علمی حلقوں میں یہ تشویش چلی آرہی ہے کہ اس کا نصاب چاندی کے ساتھ مربوط کرنے میں فی زماننا کافی حرج لازم آتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے کے بہت سے غریب افراد پر بھی قربانی لازم ہو جاتی ہے کیونکہ چاندی کی قیمت مسلسل گھٹتے گھٹتے اتنی کم ہو چکی ہے کہ معاشرے کے بہت سے غریب ترین افراد بھی اس کے مالک ہوتے ہیں، دوسری طرف جانوروں کی قیمتیں بھی بہت بڑی چکی ہیں، لہذا اگر نصابِ چاندی کے مالک پر قربانی واجب کہی جائے تو مناسب جانور خریدنے کے لیے اس کو ایک تہائی سے زیادہ نصاب خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جس میں حرج کا پایا جانا ظاہر ہے۔
چنانچہ اس سلسلے میں ہمارے دار الافتاء میں بھی کچھ عرصے سے تحقیق کی جا رہی تھی۔ دار الافتاء کے ایک رفیق مولوی ***نے اس سلسلے میں ایک تحریر تیار کی ہے،جس کو حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہم العالی نے ملاحظہ فرما کر اس پر تصدیقی تحریر لکھ دی ہے، نیز دار الافتاء کے دیگر حضرات کے تصدیقی دستخط بھی موجود ہیں۔ البتہ حضرت مد ظلہم نے اس تحریر کے مطابق فتویٰ جاری کرنے سے پہلے دیگر اہل افتاء سے موافقت حاصل کرنے کی تاکید فرمائی ہے، لہذا اس تحریر کی نقل آپ کی طرف ارسال ہے، آپ سے درخواست ہے کہ اپنی قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر اس کو ملاحظہ فرمائیں اور غور فرما کر اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہمارے رائے کے مطابق توالہ سونے کی مالیت کو قربانی کا نصاب قرار دینا درست نہیں کیونکہ قربانی کے لیے شارع نے کوئی نصاب مقرر نہیں کیا۔ بس اتنا کہا کہ جو مالدار ہو اور مالی وسعت رکھتا ہو وہ قربانی کرے۔
چنانچہ حدیث میں ہے:
من وجد سعة فلم يضح فلا يقربن مصلانا.
اب مالدار کس کو کہیں گے؟ حدیث میں زکوٰۃ کے بارے میں ہے:
تؤخذ من أغنيائهم وترد إلى فقرائهم.
اور غنی کی یعنی مالداری کی کم سے کم مقدار جو حدیث میں مذکور ہے وہ دو سو درہم چاندی ہے۔
موجودہ حالات میں قربانی کا نصاب تولہ سونا مقرر کرنا نقل و عقل دونوں کے خلاف ہے:
نقل کے خلاف اس وجہ سے ہے کہ کسی حنفی مجتہد و فقیہ سے یہ منقول نہیں ہے۔
اور عقل اور عرف کے خلاف اس طرح سے ہے کہ آج کل سونے کے نصاب کی قیمت چار لاکھ روپیہ ہے۔ اب زکوٰۃ میں مالدار وہ ہے جس کے پاس تولہ چاندی کی مالیت کے اعتبار سے چالیس ہزار روپیہ ہو جبکہ مجیب کے نزدیک قربانی میں مالداری اس وقت ہو گی جب کسی کے پاس 4 لاکھ روپیہ ہو حالانکہ 2 لاکھ یا 3 لاکھ والے کو بھی عرف اور معاشرے میں مالدار سمجھا جاتا ہے۔
کسی کے پاس روپیہ یا مال تجارت ہو اس میں آدمی کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو چاندی کا حساب لگائے اور چاہے تو سونے سے حساب لگائے۔ اولاً تو یہ اختیار زکوٰۃ کے باب میں منقول ہے، قربانی کے باب میں اس کا کچھ تذکرہ نہیں ملتا۔ اور ثانیاً زکوٰۃ کے باب میں بھی یہ اختیار اس وقت ہے جب تولہ سونے کی قیمت اور تولہ چاندی کی قیمت یکساں ہو لیکن اگر دونوں میں تفاوت ہو تو کمتر قیمت کا نصاب متعین ہو گا کہ وہ انفع للفقراء ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
في عرض تجارة قيمته نصاب … من ذهب أو ورق … مقوماً بأحدهما إن استويا فلو أحدهما أروج تعين التقويم به ولو بلغ بأحدهما نصاباً دون الآخر تعين ما يبلغ ولو بلغ بأحدهما نصاباً وخمساً وبالآخر أقل قومه بالأنفع للفقير، و في رد المحتار قال الشامي: قوله (من ذهب أو ورق) … أشار بأو إلى أنه مخير، لكن التخيير ليس على إطلاقه …. إلى أن قال: ومحل التخيير إذا استويا فقط وأما إذا اختلفا قوم بالأنفع. (2/ 33، 34)
بدائع میں ہے:
إن الدراهم والدنانير وإن كانا في الثمنية والتقويم بهما سواء لكنا رجحنا أحدهما بمرجح وهو النظر للفقراء والأخذ بالاحتياط أولى ألا ترى أنه لو كان بالتقويم بأحدهما يتم النصاب وبالآخر لا فإنه يقوم بما يتم به النصاب نظرا للفقراء واحتياطاً … و مشائخنا حملوا رواية كتاب الزكاة على ما إذا كان لا يتفاوت النفع في حق الفقراء بالتقويم بأيهما. (2/ 21)
قربانی کے لیے شارع نے کسی نصاب کا ذکر ہی نہیں کیا، اس لیے قربانی کا نصاب تولہ سونے کے ساتھ جوڑنا بلا دلیل ہے۔ فقہاء نے قربانی اور صدقہ فطر کا نصاب بتایا ہے وہ لوگوں کی سہولت کے لیے کیا ہے ۔ غرض قربانی کے وجوب کا دارو مدار مالداری پر ہے۔
ممکنہ مشکلات اور ان کا مجوزہ حل:
i۔ آدمی کی تنخواہ 40000 روپے ہے اور وہی رقم ہے جس سے آئندہ مہینے کا خرچہ بھی چلانا ہے۔ اس تنخواہ کے علاوہ اور کچھ مال نہ ہو تو ضرورت سے زائد مال نہیں ہے کیونکہ آگے دنوں میں وہ کچھ زائد نہیں کما سکتا۔
ii۔ آدمی کے پاس 40000 روپے کا مال تجارت ہے، اسی کو وہ اپنے کاروباری دائرے میں چلاتا ہے گھماتا ہے جس سے وہ روز مرہ کا خرچ نکال لیتا ہے۔
ان دونوں صورتوں میں آدمی کے پاس چونکہ ضرورت سے فاضل مال موجود نہیں ہے، اس لیے وہ مالدار بھی نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے شخص پر قربانی کا وجوب نہ ہوا۔
iii۔ اور اگر صورت یہ ہو کہ آدمی کے پاس ماہانہ تنخواہ تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو یا مال تجارت اتنی مالیت کا ہو اور اس تنخواہ یا مال تجارت کے علاوہ تولہ چاندی کی مالیت کے برابر رقم یا مال تجارت یا گھر کا فالتو سامان ہو تو، تو یہ مالدار ہے اور اس پر قربانی واجب ہو گی۔
اب صرف ایک بات رہ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ کسی خاتون کے پاس 2 تولہ سونے کا زیور ہے جو وہ کسی ضرورت کے وقت کے لیے رکھنا چاہتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ وہ اس زیور کو فروخت کر کے وصول شدہ رقم کسی اسلامی بینک میں مضاربہ اکاؤنٹ میں جمع کرا دے۔ حاصل شدہ نفع سے قربانی بھی کر لے اور کچھ بچا بھی لے۔ قربانی کرنے کے لیے یہ تو ضروری نہیں کہ وہ 20000 کا بکرا ہی خریدے 8000 یا 9000 میں گائے میں حصہ ڈال لے۔ مدارس والے مزید رعایتی کوشش کر سکتے ہیں۔
تنبیہ: ایک اعتراض یہ ہے ۔ تم نے کہا ہے کہ ’’ان دونوں صورتوں میں (یعنی ماہانہ تنخواہ پر ملازمت اور قدر نصاب کے مال تجارت میں) آدمی کے پاس چونکہ ضرورت سے فاضل مال موجود نہیں ہے ، اس لیے وہ مالدار بھی نہیں سمجھا جاتا‘‘ جبکہ دو سو درہم چاندی والے کو حدیث میں مالدار کہا گیا ہے اور اس پرزکوٰۃ واجب کی گئی ہے۔ تو تم نے 200 درہم والے کو مالدار بھی شمار کیا ہے کہ وہ زکوٰۃ دے اور غیر مالدار بھی کہ اس پر قربانی نہیں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے:
1۔ زکوٰۃ میں بھی نصاب کے حاجت اصلیہ سے فارغ ہونے کی شرط لگائی جائے جیسا کہ ابن ملک کا قول ہے۔ در مختار میں ہے:
وفارغ عن حاجته الأصلية لأن المشغول بها كالمعدوم وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقاً كثيابه أو تقديراً كدينه.
و في رد المحتار: وذلك حيث قال وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقاً كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر والبرد أو تقديراً كالدين … فإذا كان له دراأم مستحقة يصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة….إلخ
2 (i)۔ زکوٰۃ میں مذکورہ فراغت کی شرط نہ لگائی جائے۔ اس صورت میں واجب زکوٰۃ کی مقدار اتنی کم ہے کہ اس کا بآسانی تحمل کیا جا سکتا ہے، قربانی میں نہیں۔
(ii)۔ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ عید کا دن آنے سے پہلے نقد یا ادھار ضرورت کا سامان خرید لیں۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved