• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سید زادی سے اور مرید کا اپنے پیر کی زوجہ سے نکاح

استفتاء

ایک پیر صاحب ہیں جن کا نام *** ہے اور ان کا کہنا ہے کہ***ن ۔۔۔۔ ننکانہ میں ہے۔ موصوف نے اپنی ایک کتاب جس کانام*** ہے کے صفحہ نمبر 69 میں زیر عنوان "سید زادی کا نکاح امتی سے نہیں ہو سکتا” لکھا ہے:

1۔ مرید کو چاہیے کہ وہ اپنے مرشد کی زوجہ سے بعد وصالِ مرشد یا ان کی طلاق کے بعد نکاح نہ کرے رہبر کامل دین کے لحاظ سے اہل ایمان کے روحانی باپ میں ہر نبی اپنی امت کا باپ ہو تا ہے اہل اسلام پر لازم ہے کہ سید زادی کی ایسے بد باطن اور دشمن اسلام غیر سید سے شادی نکاح نہ کریں۔

2۔ اگر کوئی امتی سید زادی سے نکاح کرنے کی "خواہش” یا "کوشش” کرے تو وہ کافر ہو جائے گا۔

3۔ سید کے سوا سید زادی سے کسی غیر سید امتی یا کسی بھی شخص کا نکاح کرنا حضور ختم المرسلین آقائے دو جہاں ﷺ کی "انتہائی بے ادبی اور بے حرمتی” ہے۔

4۔ جو اس مسئلے کو نہیں مانتا اس کے امتی ہونے میں شک ہے، کیونکہ امتی کے لیے سید زادی ماں کی حیثیت رکھتی ہے اس کے باوجود اگر کوئی بد نیت سید زادی سے غیر سید کا نکاح جائز کہنا ہے تو پھر اس غیر سید کا نکاح اس کی حقیقی ماں سے بھی جائز ہے۔

5۔ تمام اہل اسلام قائدین محققین جملہ علمائے حق سب کا اسی بات پر اتفاق ہے، کہ سید زادی کا نکاح "صرف اور صرف” سید زادے ہی سے ہو سکتا ہے، غیر سید سے ہرگز نہیں۔

حضور والا! میری ان تمام نکات (1 تا 5) پر اسلام کی روشنی میں رہنمائی فرمائی جائے اور اگر یہ نکات ماوراء اسلام ہیں اور پیر صاحب نے اسلام کی غلط تفسیر کی ہے اور اسلام کی روح کو مسخ کیا ہے تو ان کے خلاف اسلامی اور قانونی چارہ جوئی کی جائے کیونکہ

اس پیر کا اثر و رسوخ روز بروز بڑھ رہا ہے اور یہ بہت سارے معصوم لوگوں کے ایمان قرآن و حدیث کی غلط تفسیر کر کے خراب کر رہا ہے، اور وہ اپنی مریدی کا دائرہ کار بڑھا رہا ہے۔

میں اپ کو اس کتاب کے صفحہ 69 تا 71 کی کاپی بھی ارسال کر رہا ہوں تاکہ آپ اس کو پڑھ کے حقیقت تک پہنچ سکیں اور جو

نکات میں اپنی ناقص العقلی کی وجہ سے نہ اٹھا سکا ان پر بھی تفصیلاً روشنی ڈالی جا سکے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ سید زادی کا نکاح امتی سے ہو سکتا ہے اور اسی طرح پیر صاحب کی اہلیہ سے بھی شرعاً نکاح جائز ہے، بشرطیکہ ان ہدایات و شرائط کا لحاظ کیا جائے جو مذہبِ اسلام نے کسی سے نکاح کرنے کے بارے میں دی ہیں۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:

و الكفاءة نسباً فقريش بعضهم أكفاء بعض و بقية العرب بعضهم أكفاء بعض. (كتاب النكاح: 4/ 197- 196)

ترجمہ: اور کفاءت نسب میں معتبر ہے لہذا قریشی آپس میں ایک دوسرے کے کفؤ (جوڑ) ہیں اور بقیہ عرب ایک دوسرے کے کفؤ ہیں۔

علامہ شامی رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا عبارت سے ثابت ہوا کہ سید زادی کے لیے تمام صدیقی، فاروقی، عثمانی، علوی، عباسی، زبیری یعنی شیوخ قریش کفؤ ہیں، ان میں سے وہ کسی کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے، اور سید زادی بالغہ غیر کفؤ (بے جوڑ نکاح) میں اولیاء کی رضا مندی سے یا اس کے اولیاء میں کوئی نہ ہو تو اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے۔

2۔ اگر کوئی  امتی سید زادی سے شرعی ہدایات کے مطابق نکاح کرنے کی خوہش یا کوشش کرے تو وہ کافر نہیں ہو گا۔بدائع میں ہے:

القرشي أنه يصلح كفأ للهاشمي و إن كان للهاشمي من الفضيلة ما ليس للقرشي لكن الشرع أسقط اعتبار تلك الفضيلة في باب النكاح عرفنا ذلك بفعل رسول الله ﷺ و إجماع الصحابة رضي الله عنهم فإنه روي: أن رسول الله ﷺ زوّج ابنته من عثمان رضي الله عنه. و كان أمويا لا هاشمياً و زوّج علي كرم الله وجهه ابنته من عمر رضي الله عنه و لم يكن هاشمياً بل عدوياً. (2/ 627)

ترجمہ: قریشی ہاشمی کا کفؤ (جوڑ) بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگرچہ ہاشمی کے لیے نسباً وہ فضیلت ہے جو قریشی کے لیے نہیں ہے، لیکن شریعت نے نکاح کے باب میں اس فضیلت کے معتبر ہونے کو ساقط (نظر انداز) کر دیا ہے، ہمیں یہ بات رسول اللہ ﷺ کے فعل اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اتفاق سے معلوم ہوئی ہے۔ کیونکہ روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا،  حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ اموی خاندان سے تھے، ہاشمی (اور سید) نہ تھے اور اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ ہاشمی (اور سید) نہ تھے، بلکہ عدوی تھے۔

مذکورہ بالا عبارت سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی غیر سید سید زادی سے نکاح کرے تو وہ کافر نہیں ہو گا، بھلا جو فعل رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام و خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہو اس کے کرنے سے کافر کیونکر ہو گا؟ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ سید نہ تھے، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدہ تھیں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سید نہ تھے، حضور ﷺ کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح ہوا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود اپنی صاحبزادی ام کلثوم بنت فاطمہ رضی اللہ عنہما کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کیا، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ سید نہ تھے، بلکہ عدوی تھے۔

3 ۔  اگر سید زادی اور اس کے اولیاء غیر سید لڑکے کی شرافت و دیانت یا اور اوصاف کو دیکھ کر اس غیر سید لڑکے سے نکاح پر

راضی ہو جائیں تو شرعاً یہ نکاح جائز ہے اور اس طرح نکاح کرنے میں آپ ﷺ کی  بے ادبی و بے حرمتی نہیں ہے۔ مبسوط میں ہے:

و إذا تزوجت المرأة غير كفؤ فرضي به أحد الأولياء جاز ذلك. (كتاب النكاح: 5/ 25)

ترجمہ: اور جب عورت نے اپنی مرضی سے بے جوڑ نکاح کر لیا اور عورت کے اولیاء میں سے کسی ایک نے بھی اس نکاح کی اجازت دے دی اور اس نکاح پر راضی رہا تو یہ نکاح شرعاً جائز ہے۔

4۔ شرعی ہدایات کے مطابق سید زادی سے نکاح کرنے سے یا اس مسئلے کو جائز سمجھنے والا کوئی بھی مسلمان آپ ﷺ کی امت سے خارج نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس کا امتی ہونا مشکوک ہوتا ہے۔

باقی رہا حقیقی ماں سے نکاح تو وہ قرآن پاک کی آیت شریفہ کی وجہ سے حرام و نا جائز ہے۔ سورہ نساء میں ہے:

حرمت عليكم امهتكم. (پارہ: 4، آية: 23) کہ تم پر تمہاری ماؤں سے نکاح کرنا حرام کر دیا گیا ہے۔

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قرآن پاک نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو امت کے لیے ماں قرار دیا ہے، ان کی بیٹیوں اور قیامت تک ہونے والی سید زادیوں کو امت کے لیے ماں قرار نہیں دیا۔

5۔ تمام علماء حق نے پیر صاحب کے عقیدے کے خلاف ہی صراحت و وضاحت کی ہے، کسی بھی مستند کتاب میں پیر صاحب کے بتائے ہوئے غلط مسئلے کی صراحت نہیں ملتی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved