- فتوی نمبر: 8-132
- تاریخ: 17 جنوری 2016
- عنوانات: عقائد و نظریات > ادیان و مذاہب
استفتاء
السلام علیکم: ایک بچی***جو کہ جنوری 2013ء میں 17 سال کی تھی، اس کو ایک ٹیچر جو کہ 2010 میں 59 سال کا تھا، پڑھانے کے لیے رکھا۔ اس ٹیچر نے بچی کو اپنے دام فریب میں پھنسا کر اپنے قابو میں کر لیا، اور اس سے جنوری 2013ء میں کورٹ میں جا کر نکاح کر لیا، بوقت نکاح بچی کے نہ تو والدین موجود تھے اور نہ ہی کوئی دیگر رشتہ دار وغیرہ موجود تھے، اور گواہِ نکاح بھی غیر معروف اور نا معلوم افراد تھے۔ مذکورہ نکاح یونین کونسل میں بھی درج کرایا گیا، اس نکاح کا علم بچی کے والدین کو جنوری 2015ء میں ہوا۔ 20 مارچ 2015ء کو مذکورہ شخص نے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی کہ بچی کے والدین نے اس بچی کو جو کہ اس وقت اس کی بیوی ہے حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔ بچی کو اور اس کے والدین کو عدالت نے طلب فرمایا، جہاں بچی نے یہ بیان دیا کہ اس کا نکاح اسی شخص کے ساتھ جس کا نام ***ہے ہو چکا ہے، اور وہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ جس پر عدالت نے اسے مذکورہ شخص کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی اور وہ مذکورہ شخص کے ساتھ چلی گئی، وہ کبھی کبھی والدین سے ملنے آجاتی ہے، والدین اس بچی کو اس شخص سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔ بچی کا تعلق فقہ حنفیہ اور مذکورہ شخص کا تعلق فقہ جعفریہ سے ہے۔
برائے مہربانی یہ بتائیے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں ولی کے بغیر مذکورہ نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
شرعی حیثیت سے مذکورہ نکاح صحیح نہیں ہوا، یعنی منعقد ہی نہیں ہوا۔ کیونکہ مذکورہ صورت میں لڑکی نے جس شخص کے ساتھ نکاح کیا ہے وہ شخص لڑکی کے جوڑ اور برابری کا نہیں۔ اس کی دو وجہیں ہیں:
1۔ لڑکی اور مذکورہ شخص کی عمروں میں 42 سال کا فرق ہے، جو ایک بہت بڑا فرق ہے، اور اتنے فرق کے ہوتے ہوئے یہ شخص اس لڑکی کے جوڑ اور برابری کا نہیں ہو سکتا۔
2۔ مذکورہ لڑکی سنی عقیدے کی ہے، جبکہ سوال کے مطابق مذکورہ شخص کا تعلق فقہ جعفریہ سے ہے، یعنی مذکورہ شخص شیعہ ہے۔ اور شیعہ مرد، سنی لڑکی کے جوڑ اور برابری کا نہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
(و) تعتبر في العرب و العجم (ديانة) أي: تقوی، فليس فاسق كفؤاً لصالحة أو فاسقة بنت صالح معلناً كان أو لا علی الظاهر. (الدر المختار: 201- 200)
الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:
هذه هي خصال الكفاءة، أما ما عداها كالجمال و السن و الثقافة و البلد و العيوب الأخری غير المثبتة للخيار في الزواج كالعمی و القطع و تشوه الصورة، فليست معتبرة، فالقبيح كفء للجميل، و الكبير كفء للصغير، و الجاهل كفء للمثقف أو المتعلم، و القروي كفء للمدني، و المريض كفء للسليم.
لكن الأولی مراعاة التقارب بين هذه الأوصاف، و بخاصة السن و الثقافة، لأن وجودها أدعی لتحقيق الوفاق و الوثام بين الزوجين، و عدمهما يحدث بلبلة و اختلافاً مستعصياً، لاختلاف وجهات النظر، و تقديرات الأمور، و تحقيق هدف الزواج، و إسعاد الطرفين. (الفقه الإسلامي و أدلته: 6755)
اور عاقلہ بالغہ لڑکی جب اپنے ولی یعنی سرپرست کی اجازت و رضا مندی کے بغیر کسی ایسے شخص سے نکاح کر لے جو لڑکی کے
جوڑ اور برابری کا نہ ہو تو ایسا نکاح سرے سے منقعد ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفؤ صح النكاح في ظاهر الرواية ۔۔۔۔۔۔ ولکن للاولیاء حق الاعتراض و روى الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله أن النكاح لا ينعقد و به أخذ كثير من مشائخنا كذا في المحيط، و المختار في زماننا للفتوى رواية الحسن و قال الشيخ الإسلام شمس الأئمة السرخسي رحمه الله رواية الحسن أقرب إلى الاحتياط. (الهندية: 1/292 )
اور فتاویٰ شامی میں ہے:
و يفتى في غير الكفؤ بعدم جوازه أصلاً و هو المختار للفتوى لفساد الزمان ( الدر المختار: 4/ 152)
نیز حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
” شیعہ بوجہ فسق اعتقادی کے سنیہ کا کفو نہ ہوگا اور غیر کفو مرد سے نکاح کرنے میں تفصیل یہ ہے ۔۔۔ اگر منکوحہ بالغ ہے تو اگر اس نے خود اپنا نکاح کر لیا ہے اور ولی عصبہ راضی نہ تھا، تب بھی نکاح صحیح نہیں ہوا”۔ (امداد الفتاویٰ: 2/ 227 )
نیز حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:
” و اگر زن سنیہ بدون اجازت ولی از خود نکاح بایں چنیں رافضی کندہم باطل شود و حاجت طلاق نیفتد بدون طلاق بمرد دیگر از اہل سنت نکاح می تواند کرد”۔ (امداد الاحکام: 2/ 204)
حاصل ترجمہ: اگر سنی عورت اپنے ولی کی اجازت و رضا مندی کے بغیر شیعہ مرد سے نکاح کر لے تو یہ نکاح باطل ہے، اور اس میں لڑکے سے طلاق لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ لڑکی والے لڑکے سے طلاق لیے بغیر لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کر سکتے ہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved