• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جہیز، لڑکے والوں کی طرف دیے ہوئے سامان اور زیورات کی ملکیت

استفتاء

1۔ لڑکی کو طلاق ہونے کے بعد جو جہیز اور بری کا سامان شادی کے موقع پر لڑکی کی ملکیت کیا گیا تھا اب وہ کس کی ملکیت ہو گا؟ لڑکی کے والدین نے جب لڑکی کی ملکیت سامان کا مطالبہ کیا تو لڑکے کے والدین نے زیور کی واپسی کا مطالبہ کیا، جو انہوں نے شادی کے موقع پر لڑکی کو دیا (اس کی ملکیت کیا تھا) حالانکہ زیور کی زکوٰۃ اور عید کے موقع پر قربانی کا جب وقت آیا تو لڑکے کی والدہ نے لڑکی سے بارہا کہا کہ جس کی چیز ہے وہی زکوٰۃ ادا کرے اور قربانی کرے۔ اس کی زکوٰۃ نہ سسرال والوں کے ذمے ہے اور نہ شوہر کے ذمے ہے۔ لڑکی نے زکوٰہ ذاتی رقم سے ادا کی اور قربانی کی۔

زیور کی تفصیل اس طرح ہے: دو تولہ سونا زیورات کی شکل میں (حق مہر)۔ تقریبا ایک تولہ سونا زیورات کی شکل میں شادی کے موقع پر لڑکی کی ملکیت کیا گیا۔ایک ہار تقریباً ڈیڑھ تولہ سونا لڑکے کی نانی کی طرف سے لڑکی کو ہدیہ کیا گیا جو لڑکے کی والدہ نے لڑکی سے لے لیا (چند دن بعد)۔

اس کا حق دار کون ہو گا؟ براہ کرم تحریری تفصیلی جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں۔

2۔ کیا سسرال والے لڑکی کو ملکیت کردہ زیور واپس لینے کے حق دار ہیں؟ یا یہ زیور لڑکی کو دیا جائے گا؟

3۔ زیور کے علاوہ لڑکے والوں کی طرف سے جو استعمال کی اشیاء جیولری، کپڑے، کاسمیٹکس وغیرہ یا تحائف دیے گئے، ان کا حقدار کون ہے؟ لڑکا یا لڑکی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔  جہیز عرف میں اس سامان کو کہا جاتا ہے جو شادی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے لڑکی کو دیا جائے۔ لہذا جہیز سے اگر یہی مراد ہے تو وہ لڑکی کی ملکیت ہو گا۔

بری کے سامان میں لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کو دیے گئے کپڑے ہوتے ہیں، جو عموماً لڑکی کو مالکانہ طور پر دیے جاتے ہیں۔ لہذا بری کے کپڑے لڑکی کی ملکیت ہوں گے۔

البتہ لڑکے والوں کی طرف سے دیے گئے زیور میں یہ تفصیل ہے کہ (1) حق مہر میں دیا گیا سونا لڑکی کی ملکیت ہے۔ (2-3) ایک تولہ سونا جو شادی کے موقعہ پر زیورات کی شکل میں لڑکی کو دیا گیا یا ڈیڑھ تولہ جو لڑکے کی نانی کی طرف سے لڑکی کو ہدیہ کیا گیا، اس کے بارے میں جب تک لڑکی والوں کا مؤقف واضح طور پر سامنے نہ آئے، اس وقت تک کچھ کہنا مشکل ہے۔

2۔ جو سونا لڑکی کی ملکیت ہے سسرال والے اسے واپس لینے کے حقدار نہیں۔ یہ زیور لڑکی کو دیا جائے گا۔

3۔ زیور کے علاوہ لڑکے والوں کی طرف سے جو استعمال کی اشیاء دی گئی ہیں ان میں جو اشیاء ایسی ہیں کہ وہ صرف لڑکی کے

استعمال کی ہیں اور استعمال سے وہ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہیں مثلاً پہننے کے کپڑے یا کاسمیٹکس تو یہ اشیاء لڑکی کی ملکیت ہوں گی۔ البتہ دیگر اشیاء مثلاً جیولری تو اس سے اگر آرٹیفشل جیولری مراد ہے تو وہ بھی لڑکی کی ملکیت ہو گی۔ اور اگر اس سے مراد وہی زیورات ہیں جن کا تذکرہ سوال میں پہلے آچکا ہے تو ان کا حکم نمبر 2 کے تحت بیان ہو چکا ہے۔

في رد المحتار (4/ 306):

قال الشيخ الإمام الأجل الشهيد المختار للفتوى أن يحكم لكون الجهاز ملكاً لا عارية لأنه الظاهر الغالب إلا في بلدة جرت العادة بدفع الكل عارية.

و فيه أيضاً (4/ 309):

كل أحد يعلم أن الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذ كله و إذا ماتت يورث عنها.

و في الفتاوى الهندية (1/ 327):

و إذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه إذا أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك كذا في الفصول العمادية.

و في الدر المختار (8/ 69- 570):

و شرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضاً …. و ركنها هو الإيجاب و القبول … و حكمها ثبوت الملك للموهوب له …. و تصح بإيجاب كوهبت و نحلت.

و فيه أىضاً (4/ 300):

و لو بعث إلى امرأته شيئاً و لم يذكر جهة عند الدفع غير المهر، فقالت هو هدية و قال هو من المهر أو من الكسوة أو عارية فالقول له بيمينه و البينة لها. و في الشامية تحت قوله (و لوبعث إلى امرأته شیئاً) أي من النقدين أو العروض أو مما يؤكل قبل الزفاف أو بعد ما بنى بها.

و في رد المحتار (4/ 306):

و المعتمد البناء على العرف.

و في رسائل ابن عابدين (2/ 115- 114):

و العرف في الشرع له اعتبار لذا عليه الحكم يدار …. و في المبسوط: الثابت بالعرف كالثابت بالنص.

……………… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved