• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی بچوں کے نان نفقہ کا انتظام کیے بغیر تبلیغی سفر پر جانا

استفتاء

ایک مسئلہ کے متعلق شرعی جواب مطلوب ہے۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے والد صاحب عرصہ دراز سے تبلیغی جماعت سے منسلک ہیں۔  اور اکثراوقات  سال ، سات ماہ اور چار ماہ کے لیے گھر والوں کا نان و نفقہ دئیے بغیر  بے یار و مدد گار چھوڑ کر جماعت میں چلے جاتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ہم سب بہن بھائیوں کے بچپن سے جاری ہے۔ ہمارے والد صاحب کے پاس زمین بھی ہے، لیکن انہوں نے کبھی اس زمین کی آمدن سے اپنی اولاد پر خرچ کرنا گوارا نہیں کیا۔

اسی وجہ سے ہم سب بہن بھائیوں نے اپنے بچپن کی زندگی بہت مشکل حالات میں گزاری۔ کئی کئی دن ہم نے دو وقت  کی روٹی میں چٹنی یا نمک کے ساتھ گزارا کیا۔ اس دوران ہماری والدہ نے لوگوں کی چارپائیاں اور نالے بن کر یا پھر لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر ہم سب بہن بھائیوں کو پالا۔ اس کے بعد   ہم بہن بھائی جوان ہو گئے ، محنت مزدوری شروع کر دی ، ہمارے دو بھائی اپنی محنت و کوشش سے سعودی عرب چلے گئے، وہاں کام کاج شروع کر دیا تو ہمارے گھر کے حالات کچھ بہتر ہو گئے۔

اسی دوران ہمارے والد صاحب کا اپنی بہنوں سے زمین کی وراثت کے متعلق تنازعہ شروع ہو گیا۔ جس میں کورٹ ، کچہری کے کیسز لڑنے کے لیے ہمارے والد صاحب کو خطیر رقم درکار تھی۔ تو ہمارے والد صاحب  نے ہم بھائیوں کو بٹھا کر کہا کہ میرا میرے شریکوں کے ساتھ مقابلہ ہے، اور مجھے یہ کیس ہر حال میں جیتنا ہے، ورنہ میری ناک کٹ جائے گی۔ اس لیے تم لوگ بطورِ قرض مجھے پیسے دے دو، میں بعد میں تم لوگوں کو واپس کر دوں گا۔ ہم بھائیوں نے جب انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے مسجد میں بیٹھ کر وعدہ لے لو کہ میں واپس کر دوں گا۔ لہٰذا ہمارے والد صاحب نے کچھ دوست احباب کے رو برو مسجد میں بیٹھ کر ہم سے وعدہ کیا کہ تم سے جتنے پیسے لوں گا وہ بعد میں تم لوگوں کو واپس کر دوں گا۔ لہٰذا ہمارے والد صاحب کورٹ کچہری کی ہر تاریخ پر وقتا فوقتا ہم سے پیسے لے کر اپنے کیس پر لگانا شروع ہو گئے۔ بالآخر کئی سالوں کی دوڑ دھوپ اور ہم بھائیوں کے لاکھوں روپے خرچ ہونے کے بعد اس کیس کا فیصلہ ہمارے والد صاحب کے حق میں ہو گیا اور یہ زمین ہمارے والد صاحب نے حاصل کر لی۔

اب جب کہ ہمارے والد صاحب کو زمین کی آمدن سے بھی خاطر خواہ رقم حاصل ہو رہی ہے، اور وہ ہمارا قرض واپس کرنے کی بھی استطاعت رکھتے ہیں، اور دوسری طرف ہمارے جو بھائی سعودی عرب گئے ہوئے تھے وہ بھی سعودی عرب کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے واپس آ گئے ہیں، اور ہمارے مالی حالات بھی نازک ہوتے جا رہے ہیں، اور  اسی مالی حالت کی کمزوری کی وجہ سےہم بہن بھائیوں کی منگنیاں ہونے کے بعد شادیاں بھی مؤخر ہو رہی ہے۔ ہم نے بہنوں کے جہیز بھی بنانے ہیں اور بھائیوں کے لیے مکان بھی بنانے ہیں۔ ان حالات میں جب ہم نے اپنے والد صاحب سے اپنی رقم کا مطالبہ کیا تو انہوں نے ادائیگی سے انکار کر دیا۔ جب ہم نے ان کو ان کا وعدہ یاد دلایا اور ان کے سامنے گواہ پیش کیےتو کہنے لگے  کہ میں تمہارا باپ ہوں اور تم میری اولاد ہو، اور اولاد کا مال باپ کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے شرعامیرے ذمے اب تمہارا کوئی مال نہیں ہے۔ تم میرے خلاف دار الافتاء سے فتوی لے آؤ  تو میں تمہیں دے دوں گا۔

اب سوال طلب امور یہ ہیں:

1۔ والد صاحب کی جانب سے مذکورہ وعدہ کے بعد جو رقم ہم بھائیوں نے والد صاحب کی زمین کے کیس پر خرچ کی تھی، وہ اب ہمارے والد صاحب کے ذمہ واجب الاداء ہے یا نہیں؟ اور ہم بھائیوں کو اس رقم کے مطالبہ کا حق حاصل ہے یا نہیں؟

2۔ نیز یہ بھی واضح فرما دیں کہ ایک شخص کے ذمہ اس کی بیوی بچوں کے نان و نفقہ اور ان کی شادی بیاہ کے حقوق لازم ہیں یا نہیں؟

3۔ اور کیا بیوی بچوں کو بھوکے مرتے چھوڑ کر ان کے نان و نفقہ کا انتظام کیے بغیر تبلیغی جماعت میں چلے جانا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ یہ رقم آپ کے والد کے ذمہ واجب الادا ہے اور آپ لوگوں کو اس کے مطالبہ کا حق حاصل ہے۔

2۔ بیوی بچوں کے نان نفقہ میں یہ تفصیل ہے کہ بیوی کا نفقہ تو ہر حال میں شوہر کے ذمہ ہے اور بچوں میں لڑکیوں کا نفقہ شادی ہونے تک باپ کے ذمہ ہے اور لڑکوں کا نفقہ بالغ ہونے تک باپ کے ذمہ ہے اور یہ بھی تب ہے کہ جب لڑکے ، لڑکیاں خود مالدار نہ ہوں اور اپنا نفقہ خود برداشت نہ کر سکتے ہوں۔

3۔ جن افراد کا نان نفقہ آدمی کے ذمہ ہے ان کے نان نفقہ کا انتظام کیے بغیر تبلیغی جماعت میں جانا جائز نہیں۔ البتہ اگر یہ افراد اپنی خوشی سے اجازت دیں اور اپنے نان نفقہ کا محنت مزدوری کرکے خود انتظام کریں اور تھوڑے بہت پر صبر کریں تو پھر نان نفقہ کا انتظام کیے بغیر بھی جا سکتے ہیں۔

فتاویٰ عالمگیری (1/ 563) میں ہے:

و نفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال و لا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن يكون الود عاجزا عن الكسب و نفقة الصبي بعد الفطام إذا كان له مال في ماله…………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved