• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

چھونے سے انزال ہونے کی صورت میں حرمتِ مصاہرت کا حکم

استفتاء

انتہائی افسوس اور ندامت کے ساتھ آپ کی خدمت میں ایک مسئلہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ چند سال پہلے میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی، میرا دل اپنی سگی خالہ کے صرف پاؤں کو شہوت سے ہاتھ لگانے کی طرف مائل تھا، اس وقت میری عمر 15 یا 16 سال اور خالہ کی عمر 45 سے 50 سال ہو گی، میں غیر شادی شدہ اور بالغ تھا، جبکہ خالہ شادی شدہ بال بچوں والی تھی، یہ فعل 5 سال تک دینی علم سے محرومی اور اپنی کم عقلی کی وجہ سے مجھ سے سر زد ہوتا رہا، ہاتھ لگانے کے دوران کوئی کپڑا حائل نہیں تھا، باقاعدہ گرمائش محسوس ہوتی، انتشار ہوتا اور منی بھی خارج ہوتی، پھر اللہ پاک نے مجھے اس گناہ کا احساس دلایا اور اب اس کام کو چھوڑے ہوئے 3 سال گذر گئے، مجھے نہیں پتہ کہ خالہ کو اس فعل کا علم تھا یا نہیں؟ اب جب بھی خالہ سے ملاقات ہوتی ہے میرے اندر اوپر بیان کی گئی کیفیت بالکل نہیں ہوتی، بلکہ ان کی والدہ کی طرح عزت اور احترام کرتا ہوں، میری فیملی اور خالہ کی فیملی اکٹھی نہیں رہتی۔ اب میری شادی کی عمر ہے اور میں اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، میرے والدین تین سال سے میرا رشتہ تلاش کر رہے ہیں اور ان کو خاندان سے باہر رشتہ ملنے میں بہت دقت ہو رہی ہے، ان کو اس خالہ کی بیٹی کے علاوہ کوئی رشتہ بآسانی اور فوری طور پر میسر نہیں، بلکہ اب تو وہ میرے رشتے کے معاملے میں اپنی دلچسپی کھو رہے ہیں، میرے والدین بضد ہیں کہ میں خالہ کی بیٹی سے شادی کروں، لیکن میں نے اس سلسلے میں انکار کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ پر حرمتِ مصاہرت لاگو ہو چکی ہے، میرے اس انکار کی وجہ سے میرے والدین مجھ سے سخت ناراض ہیں، میں ان کو اوپر بیان کیا گیا فعل نہیں بتا سکتا جو مجھ سے سر زد ہوا۔

کیا میری شادی ہو سکتی ہے خالہ کی بیٹی کے ساتھ؟ کیا کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟ جبکہ مجھے شادی کی اشد ضرورت ہے اور جلد نہ ہونے کی صورت میں میری صحت اور ایمان کو سخت نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے؟

وضاحت: یہ فعل میرے سے تقریباً 10 سے 15 دفعہ سرزد ہوا ہو گا، مکمل طور پر یاد نہیں ہے۔ ہر دفعہ باقاعدہ منی خارج ہوتی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی، لہذا آپ اپنی خالہ کی بیٹی سے نکاح کر سکتے ہیں۔

و لو مس فأنزل لم يثبت به حرمة المصاهرة في الصحیح لأنه تبين بالإنزال أنه غير داع إلی الوطء كذا في الكافي. (هندية: 1/ 275) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved