• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

منی چینجروں کا آپس میں لین دین

استفتاء

منی چینجر بعض اوقات آپس میں بھی ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں، جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً ایک کسٹمر نے کسی منی چینجر کو پاکستان میں روپے دیے کر امریکہ میں ایک ہزار ڈالر ادا کرنے کا کہا، اور اس وقت بالفرض اس منی چینجر کے نمائندے کے پاس امریکہ میں کوئی ڈالر نہیں رکھے ہوئے، اس صورت میں ایک منی چینجردوسرے سے رابطہ کرتا ہے اور اس سے ریٹ طے کرنے کے بعد یا تو امریکہ میں اس دوسرے منی چینجر کے نمائندے کے ذریعہ یا پھر اپنے نمائندے کے ذریعہ متعلقہ شخص کو ادائیگی کر دیتا ہے۔

کیا منی چینجروں کا آپس میں مذکورہ بالا لین دین جائز ہے؟ ([1])

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

منی چینجروں کا آپس میں لین دین درست ہے بشرطیکہ یا تو دونوں طرف سے موقع پر ادائیگی ہو یا کم از کم ایک طرف سے ادائیگی ہو۔ سودا کرتے وقت کسی طرف سے بھی ادائیگی نہ کی جائے یہ درست نہیں ہے۔ البتہ سودا کرنے سے قبل صرف ریٹ بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

منی چینجر کا مذکورہ کام شرعاً درست ہے۔

تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ کام میں شرعی طور سے چار خرابیاں متصور ہو سکتی ہیں:

i۔ جب سودا ٹیلی فون پر ہو تو بیع الکالئ بالکالئ (ادھار کی ادھار کے عوض خرید وفروخت)۔

ii۔ صفقۃ فی صفقۃ (دو عقدوں کو جمع کرنا)۔

iii۔ سفتجہ (ہنڈی) راستے کے خطرات سے بچنے کے لیے اپنا مال کسی کو قرض دینا۔

iv۔ حکومتی قانون کی خلاف ورزی۔

لیکن منی چینجر کے مذکورہ بالا کام میں حقیقتاً چاروں خرابیوں میں سے کوئی نہیں پائی جاتی۔ اس کی وضاحت یہ ہے:

بیع الکالئ بالکالئ اس وقت منع ہے کہ جب یہ متعاقدین کا مقصود ہو۔ اگر متعاقدین کا مقصود کوئی اور عقد ہو جس کے ضمن میں بیع الکالئ بالکالئ پائی جارہی ہو تو یہ صورت منع نہیں ہے۔ اور یہاں متعاقدین کا مقصود ارسال رقم کی وکالت ہے۔ کرنسی کی بیع ضمن میں پائی جارہی ہے، اور بیع جب ضمناً پائی جائی مقصود نہ تو صرف ان شرائط کا پایا جانا ضروری ہے جو کسی حال میں ساقط نہیں ہوتیں۔ جبکہ بیع کے اندر قبضہ کبھی ساقط نہ ہوتا ہو اور ہر  حال میں مشروط ہو، ایسا نہیں ہے۔

درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

وقد تقرر في كتب الأصول في بحث الاقتضاء أن قوله أعتق عبدك عني بألف يقتضي البيع ضرورة صحة العتق، فصار كأنه قال بع عبدك عني بألف وكن وكيلي بالإعتاق،  فيثبت البيع بقدر الضرورة حتى لا يثبت من الأركان والشرائط إلا ما لا يحتمل السقوط أصلا.

(تفصيل کے لیے دیکھیے ’’تبویب دار الافتاء والتحقیق‘‘)

صفقۃ فی صفقۃ بھی اس وقت ممنوع ہے کہ جب دونوں عقد اصالتاً ہو رہے ہوں۔ دو عقد ضمناً پائے جارہے ہوں تو منع نہیں ہے۔ جیسے حوالہ بالا  میں  ’’ أعتق عبدك عني بألف‘‘ کہ اس صورت میں اعتاق کے لیے وکیل بنانے کا عقد اصلاً ہے اور بیع ضمناً پائی جارہی ہے۔

سفتجہ کی خرابی اگرچہ پائی جا رہی ہے لیکن حنابلہ کے ہاں ایک روایت کے مطابق سفتجہ مکروہ نہیں ہے۔ اس لیے ابتلائے عام کی وجہ سے اس روایت کو لینے میں حرج نہیں ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

اگر یہ بھی نقل صحیح سے معلوم ہو جائے کہ سفتجہ کے جواز کی طرف ائمہ اربعہ میں سے کوئی امام گئے ہیں تب بھی بضرورت اس پر عمل کرنے کو جائز کہا جاوے گا۔ (امداد الفتاویٰ: 3/ 145)

المغنی لابن قدامہ میں ہے:

وقد نص أحمد علي أن من شرط أن يكتب له بها سفتجة لم يجز، ومعناه اشتراط القضاء في بلد آخر، وروي عنه جوازها لكونها مصلحتاً لهما جميعاً، وقال عطاء كان ابن الزبير يأخذ من قوم بمكة دراهم ثم يكتب لهم بها إلى مصعب بن الزبير بالعراق فيأخذونها منه فسئل عن ذلك ابن عباس فلم ير به بأساً، وروي عن علي رضي الله عنه أنه سئل عن مثل هذا فلم ير به بأساً، وممن لم ير به بأساً ابن سيرين والنخعي، رواه كله سعيد… إلخ

(تفصیل کے لیے دیکھیے ’’فقہ البیوع‘‘ از مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ)

حکومتی قوانین کی حتی الامکان پاسداری کرنی چاہیے، لیکن اگر حکومت قانون سازی کے بعد اس قانون کے نفاذ میں خود تساہل برتے تو اس قانون پر عمل کرنا شرعاً ضروری نہیں رہتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اولاً یہ بات ذہن نشین رہے کہ حکومتی قوانین کی حتی الامکان پاسداری کرنی چاہیے، لیکن قانون سازی کے بعد جب حکومت قانون کے نفاذ میں تساہل برتے اور قدرت کے باوجود قانون کی خلاف ورزی نہ روکے، تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی اس کو خاموش رضا مندی حاصل ہے۔ اس وضاحت کے بعد جواب یہ ہے کہ

سوال میں ذکر کردہ منی چینجر کے دونوں کام جائز ہیں۔ لیکن سودا کرتے وقت دونوں طرف سے یا کسی ایک طرف سے نقد ادائیگی ضروری ہے۔ یا تو منی چینجر کسٹمر کو ادائیگی کر دے یا کسمٹر سے وصول کر لے۔ سودے کے وقت کسی بھی طرف نقد ادائیگی نہ ہونا خرابی سے خالی نہیں ہے۔ اس لیے ٹیلی فون وغیرہ پر منی چینجر کسٹمر کو اپنا ریٹ بتائے سودا نہ کرے۔

نیز مشکوک قسم کے لوگوں کا کام کرنے سے اجتناب بہتر ہے، تاکہ ان کی وجہ سے کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہوں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved