• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کے عدد میں میاں بیوی کا اختلاف

استفتاء

شوہر کا بیان

میرا نام*** ہے، میری بیوی کا نام*** ہے، 8 دن پہلے جب میں دفتر سے واپس گھر آیا تو میری بیوی اپنا سامان پیک کر کے اپنے میکے جانے کے لیے تیار تھی مجھے بتائے بغیر، اور گھر میں کسی بھی فرد کو بتائے بغیر۔ جب میں نے جانے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں اب یہاں نہیں رہ سکتی، میں جا رہی ہوں، میں نے کہا کہ تم کس کو بتا کر جا رہی ہو، کس سے پوچھ کر جا رہی ہو، میں نے غصے میں آکر اس کو کہا کہ اگر تم جانا چاہتی ہوتو ٹھیک ہے چلی جاؤ لیکن بچوں کو ساتھ نہیں لے جا سکتی، بچے میرے ساتھ رہیں گے اور تم کیوں جانا چاہتی ہوں، تم گھر کس کے حوالے کر کے جا رہی ہو، تمہیں بچوں کی کوئی پرواہ نہیں، جو تم مجھ سے علیحدہ ہونا چاہتی ہے، پھر میں نے کہا کہ "اگر تم نے گھر سے باہر ایک قدم نکالا تو سمجھو کہ میں نے تم کو طلاق دی”۔ اس بات پر میری بیوی نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں نہیں جاتی میں یہیں رہوں گی، آپ کے ساتھ اور بچوں کے ساتھ۔ (میں یہ بھی بتادوں کہ میری بیوی حاملہ ہے) جب میں نے دیکھا کہ معاملہ ٹھیک ہو گیا ہے میری بیوی بچے گھر پر ہی ہیں تو کام کے سلسلے میں گھر سے باہر گیا اور پیچھے بیوی بچوں کو لے کر اپنے میکے چلے گئی بغیر بتائے اور پوچھے۔

اس واقعہ سے اگلے دن میں اپنے سسرال کے گھر گیا تو پتہ چلا کہ بیوی کلینک گئی ہے، میں وہاں گیا، وہاں کوئی نہیں تھا، بیوی  میری طرف  دیکھ کر مسکرائی، میں غصے میں تھا میں نے اس کو کہا "تمہیں شرم نہیں آتی، تم نے اپنی مرضی کر لی ہے نا، ٹھیک ہے اب تمہیں میری طرف سے طلاق ہے”۔ میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ حلفیہ بیان دے رہا ہوں۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے چلا آیا۔ میں نے غصے میں آکر غلطی سے اس کو یہ الفاظ بولے، اس  وقت میری نیت اس کو ایک طلاق دینے کی تھی۔ برائے مہربانی قرآن کی روشنی میں اس مسئلے کا حل بتائیں۔

بیوی کا بیان

ان  کے اور میرے درمیان پانچ ماہ سے چھوٹی چھوٹی باتوں سے اختلاف ہو جاتا تھا، میں نے اپنی غلطی تسلیم کر کے جو کہ وہ غلطی میری ہوتی ہی نہیں تھی مان کر آگے چلنے کی تیاری کرتی اور اس بات کو ختم کر دیتی بچوں کی خاطر، اس کی  مین وجہ ان کے والد صاحب ہیں، وہ حافظ ہے انہوں نے اپنی بیوی کو بھی اچھے طریقے سے نہیں رکھا تھا، ان کے ساتھ بھی بہت ظلم و ستم کرتے تھے، ان کی علیحدگی ہو گئی وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہنے لگ گئی اور انہوں نے اس کو طلاق نہیں دی، اس نے دوسری شادی کر لی، عدالت کے ذریعے طلاق لے کر۔ اور میں نے ان کو اپنے پاس رکھ لیا، پہلے میں اپنی ساس کے ساتھ رہتی رہی، انہوں نے مجھے  بہو کی اہمیت نہیں دی، ہمارا جھگڑا ہو گیا، اور میں علیحدہ ہو گئی، اور میں نے ان کو اپنے پاس رکھ لیا۔ میں نے خدا کی قسم ان کو اپنے حقیقی باپ سے کہیں زیادہ اہمیت دی، کسی بھی طرح سے ان کو کوئی تکلیف نہیں دی، لیکن انہوں نے گھر میں مجھے اپنے بیٹے کے سامنے کوئی اہمیت نہیں دی، میرے اور شوہر کے درمیان اگر کوئی بات ہوتی تو مجھے کسی بھی طرح کوئی اہمیت نہیں دیتے، میرے شوہر نے مجھے بیوی کی اہمیت ہی نہیں دی، صرف تین وقت کی روٹی کے علاوہ اگر میں کچھ پیسے مانگ لیتی تو نہیں دیتے، ان کے والد میرے خلاف اس کو باتیں کرتے تھے، ایک دن آٹا خراب ہو گیا، میرے سسر نے مجھے کہا کہ تم مصیبت ہو، پتہ نہیں آپ نے ہماری کب جان چھوڑنی ہے، سلطان کو فیصلہ دوں، میرے شوہر بھی چار ہفتوں سے یہی بات کر رہے تھے، میں تم سے  الگ ہونا چاہتا ہوں، میں نے ان سے یہ کہا مجھے آپ فیصلہ نہ دیں، مجھے میرے والدین کے گھر چھوڑ دو، بچوں کا خرچہ دیتے رہنا، میں بھی ٹھیک ہوں لیکن ایسا مت کریں، میں یہ بات ہر طرح سے ان کو کر کے دیکھ چکی تھی، لیکن یہ نہیں مان رہے تھے، مجھے کہتے میں نے اب آپ کو نہیں بدلنا، میں بہت روئی، میں اس وقت امید سے تھی، انہوں نے اس کا بھی خیال نہیں کیا۔ ان حالات ۔۔۔ مجھے، کوئی ایسی تکلیف نہیں  جو اس حالت میں انہوں نے نہ دی ہوں، انہوں نے کبھی میری بات نہیں مانی ہے۔ بیوی والی تو کوئی اہمیت نہیں دی، میں نے بہت برداشت کیا اپنے بچوں کی خاطر، انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی سچ سے کام نہیں لیا، بس اپنے فائدہ کے لیے کچھ بھی کر لیتے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ ان سب چیزوں سے تنگ آ کر میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنے والدین کے ہاں چلی جاتی ہوں، میں نے اپنا سامان باندھ لیا اور یہ سلطان آگئے، کہتے کہاں جا رہی ہو؟ میں نے کہا اپنے والدین کے گھر، کہتے کیوں؟ پھر انہوں نے والد صاحب کو فون کیا، انہوں نے کہا میں اس کو ماں کے گھر چھوڑ دوں اور بچے رہنے دوں، میں نے کہا میں بچوں کے بغیر نہیں جاؤں گی، پھر انہوں نے کہا ٹھیک ہے، آج کے بعد میری طرف سے آزاد ہو، جہاں جانا چاہتی ہو جا سکتی ہو، آج کے بعد میرے لیے بچے بھی مر گئے اور تم بھی، اور کہتے "اگر تم نے گھر سے ایک قدم باہر رکھا تو تمہیں میری طرف سے طلاق ہے” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن میں کلینک پر تھی وہاں ان کے والد نے بھیجا، وہاں آ کر کہنے لگے کہ تم نے اپنی مرضی کر لی ہے نا، کہنے لگے "تمہیں میری طرف سے طلاق ہے، میری طرف سے طلاق ہے”۔ انہوں نے تین پوری کہہ دی ہے، لیکن اب یہ کہہ رہے کہ دو دفعہ کہا ہے، میں قسم کھانے کے لیے بھی تیار ہوں، اور بچوں کی بھی، اگر آپ اس کے بعد بھی ان کے حق میں فیصلہ دیں گے تو آخرت میں آپ اور یہ لوگ ہی جواب دہ ہوں گے، اس سے بچوں کی آئندہ زندگی برباد ہو گی۔ مہربانی فرما کر بہتر فیصلہ کریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عورت کا دعویٰ ہے کہ اس کے شوہر نے اس کو تین طلاقیں دی ہیں، جبکہ شوہر صرف ایک طلاق کا اقرار کرتا ہے۔ اگر عورت نے غلط بیانی سے کام لیا ہے تو اس کا بڑا وبال ہے، اور اگر عورت اپنے آپ کو سچا سمجھتی ہے تو وہ تین طلاقیں سمجھتے ہوئے شوہر سے علیحدہ رہے۔

و المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

و قال في عدة أرباب الفتوی: و ما لا يصدق المرء عند القاضي لا يفتی فيه كما لا يقضی فيه.  (امداد الأحكام: 2/ 561) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved