• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میسیج کی ذریعے طلاق

استفتاء

جناب میرے نکاح کو ڈھائی سال ہو گئے ہیں، میرے شوہر انگلینڈ میں رہتے ہیں اور رخصتی ویزہ کے انتظار کی وجہ سے ابھی تک

نہیں ہوئی، اس تمام عرصہ میں میرا اپنے شوہر سے میسیجز اور فون کالز پر رابطہ رہا ہے، درمیان میں وہ پاکستان کافی بار آ چکے ہیں۔ بروز جمعہ 11 اپریل 2014ء کو میرے اپنے شوہر سے کسی بات پر بحث ہوتے ہوتے لڑائی تک پہنچ گئی اور میں نے غصے میں ان سے طلاق مانگی اور انہوں نے دے دی، انہوں نے کہا "میری طرف سے طلاق ہے”۔ اس سلسلے میں مجھے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے:

کیا میسیج کے ذریعے طلاق ہو جاتی ہے؟ چونکہ میری رخصتی نہیں ہوئی تو کیا طلاق رجعی ہوئی یا بائن؟ طلاق ہو جانے کی صورت میں عدت کا کیا حکم ہے؟ ہم دونوں کے گھر والوں اور میرے شوہر کا کہنا ہے کہ اگر لڑکی طلاق مانگے اور مرد غصے میں طلاق دے دے تو طلاق نہیں ہوتی، اس سلسلے میں شریعت کیا حکم ہے؟ رجوع کی کیا صورت ہو گی؟ اس صورتحال میں شریعت کے لحاظ سے میرا کیا حق ہے، کیا مجھ سے رجوع کے لیے زبردستی کی جا سکتی ہے؟ اب حق مہر کا کیا حکم ہے؟

مفتی صاحب میرے گھر والے اس بات کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں اور مجھ سے زبردستی بھی کریں گے کیونکہ میرا ویزہ لگ گیا ہے اور میرے پاسپورٹ کے ملتے ہی مجھے میرے شوہر لینے آ جائیں گے۔

وضاحت مطلوب ہے: 1۔ جس میسیج میں طلاق کے الفاظ لکھے ہیں وہ میسیج اور اس سے پہلے والے اور بعد والے ایک دو میسیج ارسال کریں۔  2۔ کیا آپ کی شوہر سے تنہائی میں ملاقات ہو چکی ہے؟

جواب: 1۔ تصویر نمبر 1-4 جن میسیج میں انہوں نے یہ الفاظ ادا کیے، اور تصویر نمبر 5-6 اس سے کچھ دیر پہلے کی گفتگو ہے جب انہوں نے رشتہ ختم کرنے کی بات کہی۔ الفاظ یہ تھے "میری طرف سے طلاق ہے”۔

2۔ جی نہیں۔ پر انہوں نے زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن میری مزاحمت کی وجہ سے رک گئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ جب شوہر اعتراف کرتا ہو کہ میسیج اس نے کیا ہے تو میسیج سے طلاق ہو جاتی ہے۔

2۔ طلاق بائن واقع ہوئی اور نکاح ختم ہو گیا، آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق رہ گیا۔

3۔ عدت میں تفصیل ہے کہ اگر تو سرے سے تنہائی نہیں ہوئی تو عدت نہیں اور اگر تنہائی ہوئی ہے لیکن صحبت نہیں ہوئی تو طلاق کے وقت سے عدت ضروری ہے۔ جس کی مقدار تین ماہواریاں ہیں۔

4۔ ان لوگوں کی بات درست نہیں اور طلاق ہو جاتی ہے۔

5۔  مذکورہ صورت میں اکٹھے رہنے کا صرف یہ طریقہ ہے کہ نکاح کی تجدید کی جائے جس کی صورت یہ ہے کہ دو مرد گواہوں کے سامنے یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے شوہر کہے کہ "میں نے تم سے (مثلاً) دس ہزار مہر کے عوض نکاح کیا” اور عورت کہے کہ "میں نے قبول کیا "۔ اس کی ایک اور متبادل صورت یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں اپنے کسی بڑے کو نکاح کرنے کا کہہ دیں اور وہ کہے کہ "میں نے مثلاً دس ہزار مہر کے عوض (فلاں مرد) کا نکاح (فلاں عورت) سے کیا۔”

6۔ مذکورہ صورت میں دوبارہ نکاح کرنے پر زبردستی نہیں کی جا سکتی۔

7۔ تجدید نکاح کی صورت میں آپ پچھلا مہر معاف کر دیں اور نئے نکاح میں مہر کی پہلی رقم کی مقدار مقرر کر لیں۔

8۔ موجودہ صورتحال میں بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ شوہر سے صلح کر لیں اور اپنے اندر برداشت پیدا کریں، دوبارہ نکاح

کرنے کی بہت آسان صورت بتائی ہے، امید ہے کہ اس پر سب ہی راضی ہو جائیں گے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved