• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میں تمہیں طلاق دے دیتا ہوں۔ میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں۔ تم میری طرف سے فارغ ہو

استفتاء

میں *** اپنے پورے ہوش ہو حواس میں لکھ رہی ہوں ،میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری شادی کو ایک سال دو ماہ ہو چکے ہیں، یہ میری دوسری شادی ہے، پہلے شوہر سے ایک بیٹا ہے جو کہ چھ سال کا ہے اور پیدائش سے ہی میرا بچہ میری والدہ کے پاس ہے، میری دوسری شادی 9 مارچ 2013 کو ہوئی، رخصتی کے بعد پہلی بار ہم تین ماہ ایک ساتھ رہے، اس تین ماہ کے عرصہ میں چار سے پانچ بار مجھے مارا گیا اور ایک موقع پر کہا گیا کہ "میں تمہیں طلاق دے دوں گا”، اسی طرح ایک دوسرے موقع پر کہا گیا "میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں”۔ میرے والد صاحب فتویٰ کے لیے جامعہ اشرفیہ گئے، لیکن انہوں نے کہا کہ طلاق نہیں ہوئی، کوئی تحریری جواب نہیں آیا، اس کے بعد تین ماہ کے لیے علیحدگی ہو گئی لیکن ایک ماہ کے بعد شوہر نے رجوع کر لیا۔

دوسری بار ستمبر 2013ء میں ایک ساتھ دوبارہ رہنا شروع کر دیا اور بمشکل ایک ہی ماہ ساتھ رہ سکے، اس ایک ماہ میں ایک ہی بار شوہر نے کہا کہ "میں تمہیں طلاق دے دوں گا، تم مجھے حق مہر معاف کر دو”، اس کے بعد پھر علیحدگی ہو گئی، تین ماہ تک مزید علیحدہ ہی رہے، لیکن اس عرصے میں ہماری ٹیلی فون پر بات چیت ہوتی رہی لیکن میں اپنے والدین کے گھر ہی رہی، ایک دن ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے مجھے کہا کہ "میں تمہیں طلاق دے دیتا ہوں”۔ آخر کار تیسری بار جنوری 2014 میں دوبارہ ساتھ رہنا شروع کیا، پانچ ماہ تک ایک ساتھ رہے، لیکن حالات بگڑتے جا رہے تھے، مورخہ 20 مئی 2014ء میں میرے شوہر نے ایک موقع پر کہا (اور اس وقت میاں بیوی میں تکرار ہو رہا تھا) "میں تمہیں طلاق دے دوں گا”، اسی وقت چند منٹوں کے بعد دو افراد گواہ کی موجودگی میں کہا "تم میری طرف سے فارغ ہو”۔

میرے شوہر مجھے اسلام آباد بھیجنے پر بضد تھے، کیونکہ میرا سسرال وہا ہے، لیکن میرا بیٹا جو کہ میری والدہ کے پاس ہے، میں اپنے بیٹے کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی، کیونکہ میرے شوہر نے جب سے ہماری شادی ہوئی میرے بچے کو سپورٹ نہیں کیا، تو میں اپنے بچے کو چھوڑ کر کیسے جا سکتی تھی۔

ایک سال کے عرصہ میں مجھے چار سے پانچ بار مارا گیا، مجھے دھمکیاں دیتے اور ڈراتے رہے، مجھے گندی اور تہذیب سے گری ہوئی گالیاں دیتے رہے، میں قرآن کی تفسیر سیکھنے مدرسے جاتی ہوں مجھے مدرسہ جانے سے منع کرتے اور مدرسے کے نام پر گالی بھی دیتے، مجھے میرے بیٹے سے ملنے اور میری ماں کے گھر جانے سے روکتے رہے کیونکہ جیسا کہ اوپر عرض کر چکی ہوں کہ میرا بیٹا میری والدہ کے پاس ہی رہتا تھا اور میری والدہ ہی اس کو سکول، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پوری کرتی تھی، جب میں نے ان کے ساتھ اسلام آباد جانے سے انکار کیا تو اپنے بیٹے کو چھوڑ کر جانے سے انکار کیا تو انہوں نے میرے والدین سے کہہ دیا کہ "اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ گھر لے جائیں”۔ اور اب وہ مجھے چھوڑ کر اسلام آباد جا چکے ہیں۔

ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ ایسا شخص جو میرا نان و نفقہ پورا نہ کر سکا، نہ ہی مجھے حق مہر ادا کر سکا، اور جو ایک سال میں پانچ سے چھ بار طلاق کا لفظ استعمال کر چکا ہے بہتر اور مخلصانہ جواب کی طلبگار ہوں۔ مورخہ 20 مئی کو اب اسلام آباد جانے سے پہلے وہ مجھے کہہ کر گئے ہیں کہ اگر تم میرے ساتھ اسلام آباد نہیں جاؤ گی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ اب میں ان کے ساتھ نہیں گئی ایسی صورت میں میرے لیے کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو طلاق بائنہ واقع ہو گئیں ہیں اور نکاح ٹوٹ گیا ہے، اگر میاں بیوی دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں اور شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا حق رہے گا۔

توجیہ: 1۔ شوہر کے یہ الفاظ کہ "میں تمہیں طلاق دے دوں گا” اور اسی طرح "میں تمہیں طلاق دے دیتا ہوں” کے الفاظ وعدۂ طلاق کے ہیں ان سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔

"میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں” یہ الفاظ اصلاً حال کے لیے استعمال ہوتے ہیں، کبھی قرینہ کی وجہ سے استقبال کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں چونکہ استقبال کا کوئی قرینہ نہیں اس لیے ان الفاظ سے حال ہی مراد ہے، لہذا حال ہونے کی وجہ سے ایک طلاق واقع ہو گئی۔

"تم میری طرف سے فارغ ہو” کنایہ کی قسم ثالث کے الفاظ ہیں، جن میں مذاکرۂ طلاق اور غضب کی حالت میں نیتِ طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی، اور مذکورہ صورت میں چونکہ میاں بیوی میں جھگڑا ہو رہا تھا اس لیے یہاں بھی شوہر کی نیت کی ضرورت نہیں، اس وجہ سے دوسری بائنہ طلاق واقع ہو گئی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved