• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شراب کے نشہ کی حالت میں طلاق

استفتاء

شوہر بیوی کو نشے کی حالت میں تین دفعہ "طلاق، طلاق، طلاق” بول کر گیا ہے، اب وہ واپسی  رجوع کرنا چاہتا ہے، کیا اسلام میں واپسی کا کوئی راستہ ہے یا نہیں؟

وضاحت: بیان حلفی: پہلے بھی نشہ کی وجہ سے لڑائی جھگڑے ہوتے تھے، اور خرچہ بھی نہیں دیتا تھا اور مار پیٹ بھی چلتی رہتی تھی، اور بیوی بھی تنگ تھی، جس دن طلاق دی اس دن شوہر شراب کے نشہ میں دھت تھا اور بیوی اس دن اپنے میکہ میں تھی اور شوہر نے آ کر پہلے اپنے سسر کو مارا اور گالم گلوچ کرتا رہا ہے اور پھر "طلاق، طلاق طلاق” کے الفاظ کہہ کر نکل گیا اور موقع پر دیگر لوگ بھی موجود تھے اور انہوں نے بھی یہ الفاظ سنے اور اب لڑکے کے والدین کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا ہے کہ اس حالت میں طلاق نہیں ہوتی۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس حالت میں طلاق ہوتی ہے یا نہیں؟ اور لڑکی کہتی ہے کہ شریعت میں اگر کوئی گنجائش ہے تو ہماری رہنمائی فرمائیں تاکہ ہم دوبارہ رجوع کر سکیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ ہمارے زمانے میں نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق کو واقع ماننے سے اکثر زد بیوی بچوں پر ہی پڑتی ہے اور نشہ کا عادی شخص کوئی زجر محسوس نہیں کرتا، لہذا بیوی بچوں کی مجبوری کی وجہ سے ان حضرات کے قول پر عمل کیا جا سکتا ہے، جو نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق کو واقع نہیں مانتے، اور جیسے آگے حوالے میں ذکر ہے حنفیہ میں سے امام طحاوی، امام کرخی اور امام محمد بن سلمہ رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں، اگر ایسے نشہ باز کی بیوی طلاق چاہتی ہو تو وہ عدالت سے نکاح

فسخ کروا سکتی ہے۔

و في مسئلة الطلاق خلاف عال بين التابعين و من بعدهم فقال بوقوعه من التابعين سعيد بن المسيب و عطاء و الحسن البصري و إبراهيم النخعي و ابن سيرين و مجاهد و به قال مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي في الأصح و أحمد في رواية و قال بعدم وقوعه القاسم بن محمد و ربيعة و الليث و أبو ثور و زفر و هو مختار الكرخي و الطحاوي و محمد بن سلمة من مشائخنا. (فتح القدير: 3/ 482)

و يصح طلاق السكران و لو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجراً، به يفتی تصحيح القدوري. (تنوير الأبصار و رد المحتار: 3/ 240)

و في التاترخانية طلاق السكران واقع و هو مذهب أصحابنا. (رد المحتار: 3/ 241)

مذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتی لنفسه لكون المرجوح صار منسوخاً و قيده البيري بالعاصي أي الذي لا  رأي له يعرف به معنی النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل بالضعيف من الرواية في حق نفسه نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عامياً فلم أره، لكن مقتضی تقييده بذي الرأي أنه لا يجوز للعامي ذلك، قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنی النصوص و الأخبار و هو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها و إن كان مخالفاً لمذهبه، و قد ذكر في حيض البحر أقوالاً ضعيفة في بحث ألوان الدماء ثم قال: و في المعراج عن فخر الأئمة لو أفتی مفت بشئ من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلباً للتيسير كان حسناً. (رد المحتار: 1/ 74)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved