• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ضرب شدید کی وجہ سے عدالتی فسخ نکاح

استفتاء

ہماری بچی کا نکاح*** کے ساتھ 2009ء میں ہوا، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہماری بچی کے ہاں جو اولاد پیدا ہوئی، اس میں پہلی بچی پیدا ہوئی، اس کے بعد دوسری بچی پیدا ہوئی، اس سے ہمارے داماد کا رویہ بگڑ گیا کہ ہمارے ہاں بچیاں ہی کیوں پیدا ہو رہی ہیں؟ اس پر  اس نے ہماری بچی کو مار پیٹنا بھی شروع کر دیا، ہم عزت دار لوگ ہیں ہم نے اپنی ہر ممکنہ کوشش کی، کہ ہماری بچی سسرال رہے، نہ جانے کن کن طریقوں سے ہم اسے چھوڑ کر آئے، لیکن اس کی طرف سے مار پیٹ میں کوئی کمی نہیں، ہماری بچی کا مار مار کر تشدد سے اس نے حلیہ بگاڑ دیا ہے، آخر کار ہم اپنی بچی کو گھر لے آئے اور تیسری بچی ہمارے ہاں آ کر پیدا ہوئی، اس کے بعد ہم نے عدالت سے طلاق لینے کے لیے دعویٰ کیا، ہمارا داماد عدالت میں ایک بار بھی حاضر نہیں ہوا، حتی کہ عدالت نے ہمارے حق میں خلع کی ڈگری مورخہ 2013-9-10 کو جاری کر دی، اب ہم اپنی بچی کا نکاح دوسری جگہ کرنا چاہتے ہیں، بچی نے عدت پوری کر لی ہے۔ کیا ہم دوسری جگہ نکاح کر سکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عدالت کی طرف سے کیا گیا فسخ نکاح شرعاً معتبر ہے، کیونکہ اس فسخ کی بنیاد شوہر کی ضربِ شدید ہے جو کہ مالکی مذہب کی رُو سے معتبر بنیاد ہے۔ فتاویٰ عثمانی 2/ 471 میں ہے:

"(عدالت کا) فیصلہ احقر نے پڑھا، اس فیصلے میں شوہر کے ضربِ شدید اور نا قابل برداشت جسمانی اذیت رسانی کی نبیاد پر مسماۃ ۔۔۔۔ کا نکاح فسخ کر دیا گیا، فسخ نکاح کی (یہ) بنیاد مالکی مذہب کے مطابق درست ہے، اور فقہاء حنفیہ نے ضرورت کے موقع پر اس مسلک کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔”

مذکورہ صورت میں چونکہ فیصلے کے بعد عدت گذر چکی ہے اس لیے عورت آزاد ہے، دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved