• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کاروبار کے نام پر پیسے لینا اور بغیر کاروبار کیے نفع دینا

استفتاء

***میں رہنے والے ایک کرایہ دار کو اپنے کاروبار کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑی تو اس نے *** کو اپنی مجبوری بتائی۔ اس صورت حال کے پیش نظر *** نے اپنے تعلقات کی بناء پر اپنے محلے کے ایک آدمی کو ترغیب دی کہ آپ کچھ پیسے دیں آپ کے پیسے فلاں صاحب کے کاروبار میں انوسٹ کر دیں گے اور آپ کو پرافٹ دیا کریں گے۔ ***کے کہنے پر اس شخص نے دو لاکھ روپے دے دیئے۔ *** نے وہ پیسے کرایہ دار کے کاروبار میں انویسٹ کر دیئے۔ جب دو ماہ بعد پیسے دینے والے نے ***کو پرافٹ کا کہا تو انہوں نے اپنی جیب سے دس ہزار روپے نکال کر دے دیے کہ یہ آپ کا پرافٹ ہے حالانکہ انہوں نے یہ پیسے اپنے کرائے دار کے کاروبار میں شامل کرنے کے لیے لیے تھے اور اس کرایہ دار کے ساتھ کوئی نفع نقصان بھی نہیں ہوا تھا۔ چونکہ یہ کرایہ دار ***کی بیسمنٹ استعمال کرتا تھا اور بیسمنٹ کم ہی کرائے پر چڑھتی تھی تو ***نے اس کرایہ دار کے کاروبار میں روپے اس لیے انویسٹ کئے تاکہ کرایہ دار بیسمنٹ چھوڑ کر نہ چلا جائے۔ مذکورہ بالا معاملہ شرعاً کیسا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ بالا معاملہ شرعاً ناجائز ہے کیونکہ اس میں نفع و نقصان اور دیگر شرائط طے نہیں کی گئیں۔ اسی طرح تنویر صاحب کا بجائے کاروبار کے حقیقی نفع سے اپنی جیب سے نفع کے طور پر رقم دینا جائز نہیں۔ لہٰذا یہ معاملہ ختم کرنا ضروری ہے اور آئندہ ایسا معاملہ کرنے سے پہلے کسی معتبر دارالافتا سے مشورہ کر لیں۔

(١)درر الحکام: (ص ٣٥١، ج ٣ المادة: ١٣٣٦)

یشترط بیان الوجه الذی سیقسم فیه الربح بین الشرکاء، و إذا بقي مبهماً و مجهولاً تکون الشرکة فاسدة۔

(٢)درر الحکام: (ص ٣٥٢، ج ٣ المادة: ١٣٣٧)

یشترط أن تکون حصة الربح الذی بین الشرکاء جزء اً شائعاً کالنصف والثلث والربع فإذا اتفق علی أن یکون لأحد الشرکاء کذا درهماً مقطوعاً من الربح تکون الشرکة باطلة). والله تعالیٰ أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved