• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قیمت کی ادائیگی کے اعتبار سے پی کمپنی کے ڈیلروں کی اقسام ،ایڈوانس پارٹی

استفتاء

پی کمپنی اپنا مال ڈیلروں کو فروخت کرتی ہے پھر آگے عام گاہکوں کو وہ خود فروخت کرتے ہیں (١) اگر کوئی پرانی پارٹی(ڈیلر) ہو اور وہ ایڈوانس پارٹی بننا چاہے تو پاپولر پی کمپنی اس کے گزشتہ ماہ کی سیل چیک کرتی ہے ،مثلاً گزشتہ ماہ اس نے 5 لاکھ کامال منگوایا تھا تو پی کمپنی اس ڈیلر سے کہتی ہے کہ اس ماہ تم مجھے ایڈوانس5 لاکھ دے دو اس کے بدلے پی کمپنی اس ڈیلر کو2%اضافی ڈسکاؤنٹ دیتی ہے ۔واضح رہے یہ ڈسکاؤنٹ ،انوائس ڈسکاؤنٹ (جو کہ20% ہے )اور ماہانہ یا ششماہی سیلز کی بنیاد پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کے علاوہ ہے جو کہ محض ایڈوانس پیمنٹ کی وجہ سے ڈیلر کو مل رہا ہے ۔اس میں بعض اوقات ڈیلر پوری پیمنٹ ایڈوانس ادا نہیں کرتا بلکہ 5 لاکھ کے بجائے 3 لاکھ دے دیتا ہے ،پی کمپنی اس صورت میں بھی اسے2%اضافی ڈسکاؤنٹ دے دیتی ہے .

(٢)اگر کوئی نئی پارٹی (ڈیلر)ہو جس کا پچھلا ریکارڈ پی کمپنی کے پاس نہ ہو اور وہ ایڈوانس پر چلنا چاہے تو اس صورت میں پی کمپنی اس ڈیلر سے اس کا تخمینہ (Estimate)پوچھتی ہے کہ اس نے ماہانہ کتنی سیل کرنے کا تخمینہ لگایا ہے ،اگر وہ کہے کہ میں نے مثلاً 3لاکھ کا تخمینہ لگایا ہے تو پی کمپنی اسے کہتی ہے کہ ٹھیک ہے3لاکھ ایڈوانس دے دو اور اس صورت میں پی کمپنی اسے2%اضافی ڈسکاؤنٹ دے دیتی ہے ۔

مذکورہ بالا صورتوں کا شرعاً کیا حکم ہے ؟

نوٹ: مذکورہ دونوں صورتوں میں ڈیلر سے ایڈوانس رقم لیتے وقت آرڈر نہیں لیا جاتا یعنی مال کی مقدار اور صفات طے نہیں کی جاتی بلکہ ڈیلر کو بعد میں جتنے سامان کی ضرورت ہوتی ہے وہ آرڈر دے کر منگوا لیتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ دونوں صورتیں جائز نہیں کیونکہ ان دونوں صورتوں میں دو خرابیاں ہیں۔

(١)        ایڈوانس میں جو رقم دی جاتی ہے ، اس کی حقیقت قرض کی ہے اور قرض اور بیع کو جمع کرنا شرعاً ناجائز ہے۔

(٢)اس ایڈوانس کی وجہ سے ڈسکائونٹ ملتا ہے جو سود کے شبہ سے خالی نہیں۔

البتہ متبادل طریقہ یہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ ڈیلر سے ایڈوانس میں ہی پوری قیمت وصول کی جائے اور جو چیزیں جتنی مقدار میں ڈیلر کو چاہیں ان کا آرڈر ڈیلر سے اسی وقت لے لیا جائے اور بعد میں اس میں تبدیلی بھی نہ کی جائے۔ اس طرح کرنے سے یہ بیع سلم کی صورت بن جائیگی اور ڈسکائونٹ بھی درست ہو جائے گا۔

(١)لما في سنن الترمذي (ص ١٧٧٤) طبع: دارالسلام بیروت

(حدیث: ١٢٣٤) أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل سلف وبيع، ولا شرطان في

بيع، ولا ربح ما لم يضمن، ولا بيع ما ليس عندك».

(٢) وفی الفتاوی الولوالجیة (٣/١٤٩) طبع: دارالکتب العلمیة بیروت

رجل دفع دراهم إلی خباز فقال: اشتریت منک مائة من خبز و جعل یأخذ کل یوم خمسة أمنان فالبیع فاسد، وما أکل فهو مکروه، لأنه اشتری الخبز غیر مشار إلیه فکان البیع مجهولاً، فإذا أکل کان الأکل بحکم عقد فاسد…

(٣) و في الدرالمختار (٧/٤١٣) طبع: دارالمعرفة بیروت

وفی الاشباہ: کل قرض جر نفعاً حرام

وفي الشامیة تحته:  قوله: (کل قرض جر نفعاً حرام) أي: إذا کان مشروطاً کماعلم مما نقله عن البحر. وعن الخلاصة وفی الذخیرة: وإن لم یکن النفع مشروطاً في القرض، فعلیٰ قول الکرخی: لا بأس به، و یأتي تمامه۔

(٤) وفي بدائع الصنائع (٦/٥١٨) طبع: داراحیاء التراث العربی

( وأما ) الذي يرجع إلى نفس القرض : فهو أن لا يكون فيه جر منفعة ، فإن كان لم يجز ، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة ، على أن يرد عليه صحاحا ، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة ؛ لما روي عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه { نهى عن قرض جر نفعا } ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا ؛ لأنها فضل لا يقابله عوض ، والتحرز عن حقيقة الربا ، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض.

(٥)وفي الدرالمختار: (٧/٤٧٨) طبع: دارالمعرفة بیروت

وشرعا ( بيع آجل ) وهو المسلم فيه ( بعاجل ) وهو رأس المال ( وركنه ركن البيع ) حتى ينعقد بلفظ بيع في الأصح … ( وحكمه ثبوت الملك للمسلم إليه ولرب السلم في الثمن والمسلم فيه ) فيه لف ونشر مرتب ( ويصح فيما أمكن ضبط صفته ) كجودته ورداءته ( ومعرفة قدره كمكيل وموزون و ) … (و) بقي من الشروط (قبض رأس المال)… ولو عینا (قبل الافتراق)… (ولا يجوز التصرف) للمسلم إليه (في رأس المال و) لا لرب السلم في (المسلم فيه قبل قبضه بنحو بيع وشركة) ومرابحة (وتولية) ولو ممن عليه حتى لو وهبه منه كان إقالة إذا قيل، وفي الصغرى: إقالة بعض السلم جائزة (ولا) يجوز لرب السلم (شراء شئ من المسلم إليه برأس المال بعد الاقالة) في عقد السلم الصحيح، فلو كان فاسدا جاز الاستبدال كسائر الديون (قبل قبضه) بحكم الاقالة لقوله عليه الصلاة والسلام لا تأخذ إلا سلمك أو رأس مالك أي إلا سلمك حال قيام العقد أو رأس مالك حال انفساخه، فامتنع الاستبدال………………فقط والله تعالٰی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved