• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صریح کے بعد کنایہ الفاظ کا استعمال

استفتاء

میاں بیوی میں لڑائی ہوئی، اور وہاں پر موجود خاوند کے دو بھائی اور اس کی بیویاں تھیں، اور مالک مکان بھی وہاں موجود تھا، ان کی موجودگی میں خاوند نے طلاق کا لفظ استعمال کیا، خاوند کو لڑکی کے بھائی نے فون کیا اور پوچھا کہ آپ نے کتنی طلاقیں دی ہیں، تو اس نے کہ مجھے پتہ نہیں؟ دو دی ہیں یا تین، پھر اس سے کہا کہ سوچ کر بتاؤ۔ تھوڑی دیر  بعد دوبارہ فون کر کے بتایا کہ میں نے اپنے بھائی اور بھابھی کو فون کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ نے دو دفعہ (طلاق دتی) طلاق کا لفظ استعمال کیا ہے، اور تیسری اور چوتھی مرتبہ کہا کہ تم فارغ ہو، لیکن جب شام کو لڑکے سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ میں نے اسے دو طلاقیں دی ہیں، اور تیسری مرتبہ کہا ہے "دفع ہو جاؤ”۔ مالک مکان نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ سنا ہے، لیکن مجھے الفاظ کا پتہ نہیں کہ اس نے کن الفاظ سے طلاق دی ہے، پھر دوبارہ لڑکے سے فون پر بات ہوئی تو اس سے پوچھا کہ آپ نے کیا الفاظ استعمال کیے تھے تو اس نے کہا ہے کہ میں نے کہا تھا کہ میں تجھے طلاق دے دوں گا، اور اس کی بھابھی سے بات ہوئی ہے اس نے بھی کہا کہ ہمیں الفاظ یاد نہیں ہیں، صرف ہم نے طلاق کا لفظ سنا ہے۔ جبکہ لڑکی کا کہنا ہے کہ میں نے کچھ نہیں سنا، میں دوسرے کمرے میں تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوئی ہیں پہلا نکاح ختم ہو گیا ہے، دوبارہ  اکٹھا رہنے کے لیے نئے سرے سے مہر کے ساتھ کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ آئندہ کے لیے خاوند کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔

توجیہ: دو رجعی طلاقیں دوفعہ "میں تینوں طلاق دیناں” کہنے سے ہوئیں، بعد کے کنایات نے عدد میں اضافے کی بجائے ان رجعی کو بائنہ بنا دیا۔

لما في الخلاصة: لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنی به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائناً و إن عنی به الإبتداء فهي طالق آخر بائن. (2/ 86)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved