• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تو اپنی ماں کے گھر رہ، میں اپنے گھر رہتا ہوں

استفتاء

ایک شخص نے اپنی  بیوی کو فون پر کہا کہ ” تو اپنی ماں کے گھر رہ، میں اپنے گھر رہتا ہوں”، اور پھر کہا کہ "تو دفعہ ہو جا”، چنانچہ ایک دو دن پھر فون پر کہا کہ "تو دفعہ ہو جا”، پھر چند دن بعد غصہ کی حالت میں اس نے بیوی سے کہا کہ تو نے میرے ساتھ رہنا ہے یا نہیں؟ بیوی نے آگے سے کوئی جواب نہ دیا اور فون اپنے بھائی کو پکڑا دیا، بھائی سے تلخ کلامی کے  بعد اس نے بیوی کے بھائی سے کہا کہ "تم اپنی بہن کو اپنے پاس رکھو اور اس کا اچار ڈالو”۔ واضح رہے کہ لڑکا کچھ نہیں کرتا اور یہ سارے الفاظ خرچہ پر بحث مباحثے کے دوران پیش آئے، بیوی چاہتی ہے کہ یہ کوئی نوکری کرکے کما کر لائے اور خرچہ دے، لیکن ایسی کوئی صورت نہیں، شادی کو تقریباً ایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے، بیوی خود کوشش محنت کر کے اپنا خرچ چلاتی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ جو الفاظ کہے گئے ہیں ان کا شرعی حکم کیا ہے؟ ان سے طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟

نوٹ:  بیوی نے آج تک اپنے اخراجات بشمول اس کے اخراجات کے برداشت کرتی آ رہی ہے، بیوی بوجہ ولادت اپنے میکے میں ہے اور بارہا اس سے یہ اصرار کر چکی ہے کہ وہ کچھ کرے، کما کر لائے اور ان ہی باتوں پر چڑ کر اس نے ایسے الفاظ کہے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی ہے، اور پہلا نکاح ختم ہو گیا ہے، عدت کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، اور اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو دوبارہ  دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: شوہر کا یہ جملہ ” تو اپنی ماں کے گھر رہ، میں اپنے گھر رہتا ہوں” کنایہ کی تیسری قسیم ہے جو متمحض للجواب ہے، اور اس قسم میں عند الغضب قضاءً طلاق واقع ہو جاتی ہے، باقی الفاظ کنایہ ہیں اور البائن لا یلحق البائن کے تحت ان سے کوئی نئی طلاق واقع نہ ہو گی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved