• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عمومی اجازت کا طلاق کو شامل ہونا

استفتاء

صلح نامہ کی کاپی، پس منظر کی کاپی اور فریق اول کے حلفیہ بیان کی کاپی ارسال ہے۔ ان تینوں کو سامنے رکھ کر درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں، جبکہ معاہدہ میں لکھے ہوئے دونوں کام ابھی تک سر زد نہیں ہوئے۔

1۔ آیا مذکورہ اشخاص (***) کو اب طلاق والی شرط رد کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ کیونکہ طلاق والی شرط کی تحریر جب ان کے پاس پہنچی تو اس مجلس میں انہوں نے اس شرط کو رد نہیں کیا۔ (اس خالی جگہ میں اختیار دینے سے مراد طلاق کا اختیار نہیں

تھا) آیا اب ان کو اس مجلس کے بعد رد کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟

2۔ آیا ***نے ان میں سے کوئی کام معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کر لیا تو طلاق ہو جائے گی یا نہیں؟

3۔ ان کے والد نے ان کو ساتھ لیے بغیر بہو کو رخصت کر کے لے آیا، ان کو مجلس میں حاضر کیے بغیر نکاح کر دیا تو بھی طلاق ہو جائے گی یا نہیں؟ حالانکہ وہ باپ کو معاہدہ کا پابند بنانے کی ذمہ داری لے چکے تھے۔

***کا حلفیہ بیان

1۔ میں  ***اللہ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اور گواہ بنا کر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ جب مجھے (اپنے ساتھ زیادتیوں کے بعد) مذکورہ جگہ خفیہ طریقہ سے اور پھر ظاہر ہونے  کے بعد پتہ چلا کہ فلاں جگہ رشتہ طے ہو گیا ہے، اور پھر میری اطلاع کے بغیر نکاح بھی ہو گیا ہے اور پھر تحریری معاہدہ اور صلح نامہ تک۔ اس تمام عرصہ میں میں نے بہن اور بھانجے اور بھانجیوں کے سامنے بہت سے ایسے الفاظ استعمال کیے کہ جن سے شدت اور نفرت کا اظہار ہوتا تھا:

۱۔ میں بھی آخری حد تک جاؤں گا۔

۲۔ نکاح اتنی آسانی سے ہمیں شامل کیے بغیر نہیں ہو گا۔

۳۔ اگر ہماری ضد میں ہماری صلح کروائے بغیر نکاح اور شادی ہو گئی تو کسی صورت چلنے نہیں دیں گے۔

۴۔ صلح صفائی سے بات نہ بنی تو بات گولی تک جائے گی وغیرہ (یہ الفاظ مجھے یاد تھے)

2۔ تحریری معاہدہ کے آخر میں )ان دونوں شرطوں کی خلاف ورزی کی صورت میں …………………)لکھ کر آگے جگہ خالی کر دی اور نیچے دستخط ہو گئے، اور ان سے زبانی یہ بات طے ہوئی کہ خلاف ورزی کی صورت میں جو بات میرے دل میں آئے گی اور جس عبارت کے ذریعے سے بھی میں اس معاہدہ پر عمل کروانے پر قادر ہو سکا، میں اس خالی جگہ وہ عبارت لکھوں گا۔ ان تینوں نے 20 منٹ تقریباً الگ ہو کر مشورہ کیا اور پھر اس شرط کے تسلیم زبانی کرنے کے بعد خالی جگہ کے نیچے دستخط کر دیے۔

3۔ انہوں نے زبانی طور پر دستخط کرنے سے پہلے اپنے والد کی بھی ذمہ داری لی کہ ہم اس کی معاہدہ پر پابند رہیں گے اور خلاف ورزی نہ کرنے کی ذمہ داری لیتے ہیں، اور خالی جگہ پر ہر قسم کی شرط لکھنے کا اختیار آپ کو دیتے ہیں آپ کی جو مرضی ہو گی وہ اس جگہ لکھ لینا۔

پس منظر

1۔ ***کی شادی 2002 میں اس کی چچا زاد بہن ***کے ساتھ طے ہونے لگی تو (اس کی بہن ***جو کہ بڑی اور شادی شدہ تھی) شدید اصرار کر کے وہاں شادی کرنے کی مخالفت کی، جبکہ ***کے والدین *** کو رشتہ دینے کے لیے تیار تھے اور*** کے بہن بھائیوں اور والدین میں سے اکثر کی رائے ***سے شادی کرنے کی تھی۔

2۔ ***کا بہنوئی***بھی یہاں شادی کرنے کے حق میں تھا، کیونکہ وہ دوسری جگہ اپنی طرف سے رشتہ مانگنے چلا گیا تو دوسری لڑکی والوں نے اسے جواب دیا کہ*** کے گھر والے رشتہ کے لیے ہم سے خود رابطہ کریں۔

3۔ ***کے گھر والوں نے بہن اور بہنوئی کے انتخاب والی جگہ رشتہ کے لیے رابطہ کیا تو یہاں رشتہ طے ہو گیا اور شادی ہو گئی۔

4۔ ***کی شادی کے کچھ عرصہ بعد ***اور اس کے بھائی کا رشتہ*** کی سالی اور سالے سے طے ہونے لگا تو ***  کی اسی بہن نے اس کو یہ رشتہ نے ہونے سے روکنے کے لیے ابھار  ا               اور اس کو                        اس رشتہ کی مخالفت کرنے پر تیار کیا،      کیونکہ یہ رشتہ طے

ہونے  کے بعد***سسرال کے گھر ڈی گریڈ ہو جاتا، اس کے بقول۔

5۔***نے بہن کے کہنے پر سسرال والوں سے مذکورہ جگہ رشتہ نہ کرنے پر اصرار کیا تو ان کی طرف سے*** کو جواب ملا کہ آپ کی بہن اور بہنوئی اپنے بیٹے اور بیٹی کا رشتہ وہاں کرنے کے لیے آپ سے سالے اور سالی کا رشتہ تڑوا رہے ہیں۔

6۔  ***سے اس کے چچا (***کے والد) نے خود فون کر کے اس کی سالے اور سالی کا رشتہ مانگا کہ آپ کے سسرال آپ کی رضا مندی کے بغیر ہمیں رشتہ نہیں دے رہے۔

7۔ چند دن بعد*** کو پتہ چلا کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے ینی اس کی بہن اور بہنوئی نے اپنے بیٹے اور بیٹی کا رشتہ ***اور اس کے بھائی کے ساتھ کر دیا ہے۔ لیکن *** نے جب اپنی بہن سے پوچھا تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ جھوٹ ہے، لیکن کچھ عرصہ بعد شواہد اور قرائن سے یہ باتی یقین میں بدل گئی کہ ان کا رشتہ آپ *** کو بتائے بغیر طے ہو چکا ہے۔

8۔ بالآخر*** کو اطلاع دیے بغیر ***کے بیٹے اور بیٹی کا نکاح ہو گیا اور وہ بھی اسی مذکورہ جگہ پر جہاں پر دو دفعہ***سے مخالفت کروائی گئی تھی۔

9۔ جس دن نکاح ہوا اس دن*** اپنی بہن اور اس کی تینوں بیٹیوں کو اپنے ساتھ لے کر چلا گیا، جبکہ اس کا خاوند اور بیٹے ابھی تک نکاح کے شہر سے واپس نہیں لوٹے تھے، جس جگہ نکاح ہوا تھا۔

10 نکاح کرنے کے بعد گھر واپسی پر ***کے خاوند کو ساری صورت حال کا اندازہ ہوا تو اس نے اپنی تینوں بہنوں کو *** کے پاس بھیجا کہ وہ ***اور اس کی بیٹیوں (بہن بھانجیوں) کو گھر واپس بھیجے، لیکن***نے ان کے سامنے تمام زیادتیوں کو بیان کیا اور ان سے شرط رکھی کہ ان کا بہنوئی اپنی ایک بچی کا رشتہ*** کے پانچ بچوں میں سے کسی کو دے دے تاکہ زیادتیوں کا ازالہ بھی ہو جائے اور اس ذریعہ سے ***کے اپنے چچا اور خالہ دونوں کی اولاد سے تعلقات بحال ہو جائیں گے، لیکن مشورہ کے لیے آنے والیوں نے اپنے بھائی سے مشورہ کرنے کا وقت مانگ لیا اور واپس چلی گئیں۔

11۔ دوسرے دن ***کے تینوں بیٹے اپنے ماموں کے پاس آئے تو ***نے پوری تفصیل ان کے سامنے رکھی۔ بالآخر دونوں فریقوں کے درمیان تحریری معاہدہ ہوا اور انہوں نے اس معاہدے کی اپنے والد کی طرف سے بھی پابندی کروانے کی ذمہ داری لی۔

12۔ ***کی جس بچی ***کا نکاح ہوا، اس کی تمام تعلیم و تربیت***کے گھر میں ہوئی، لیکن اس دوران اس کی اپنی بیوی سے کئی مرتبہ انہیں حالات کی وجہ سے تلخ کلامی اور ناراضگی ہوئی۔

13۔ اس معاہدہ کے آخر میں تینوں بھائیوں نے دستخط کیے، لیکن دستخط کرنے سے پہلے انہوں نے مشورہ کرنے کا وقت مانگا اور تقریباً آدھا گھنٹہ آپس میں الگ بیٹھ کر مشورہ کر کے اس تحریر پر دستخط کیے۔

14۔ صلح نامہ کی شرطوں کو تحریر کرنے کے بعد آخر میں عبارت "خلاف ورزی کی صورت میں …………………………” لکھ کر تین چار سطروں کے برابر جگہ خالی چھوڑ دی گئی اور*** کی طرف سے یہاں اپنی مرضی کی عبارت لکھنے کا معاہدہ ہو گیا۔

15۔ اس تحریر کے بعد تینوں اپنی والدہ اور بہنوں کو لے کر گھر واپس چلے گئے۔

صلح نامہ اور معاہدہ نامہ

درمیان***

1۔ ***اور*** اور***دختران*** کے نکاح اور شادی کے لیے*** سے مشورہ  اور اس کی رضا مندی ضروری ہو گی، مذکور کی رضا مندی کے بغیر ان چاروں کا نکاح اور شادی نہیں کی جائی گی۔

2۔ ***اور ***کی رخصتی کے لیے ان دونوں کے تمام سسرال والوں کا*** کی مرضی کے مطابق راضی کرنا اور اس سے تعلقات قائم کرنا ہو گا۔ ان دونوں شرطوں کی خلاف ورزی کی صورت میں ……………………………………………………………………

(بعد کی تحریر)صلح نامہ اور معاہدہ نامہ

درمیان***

1۔ ***اور*** اور ***دختران*** کے نکاح اور شادی کے لیے***سے مشورہ  اور اس کی رضا مندی ضروری ہو گی، مذکور کی رضا مندی کے بغیر ان چاروں کا نکاح اور شادی نہیں کی جائی گی۔

2۔ ***اور ***کی رخصتی کے لیے ان دونوں کے تمام سسرال والوں کا*** کی مرضی کے مطابق راضی کرنا اور اس سے تعلقات قائم کرنا ہو گا۔ ان دونوں شرطوں کی خلاف ورزی کی صورت میں  ***کی بیوی کو تین طلاق اور دوبارہ ***کیا اور ***اور ***کا جب بھی نکاح ہو ان کی بیویوں کو تین طلاق۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ دوسرے کی طرف سے تعلیق بالطلاق ہے، ***وغیرہ نے دستخط کیے ہیں، پھر دوسرے شخص نے معلق طلاق تحریر کی ہے، غرض ***وغیرہ نے خود تعلیق بالطلاق نہیں کی اور پہلے کیے ہوئے دستخط بے فائدہ اور لغو ہیں، جبکہ دستخط کرتے ہوئے ان کے ذہن میں تعلیق بالطلاق کا تصور بھی نہیں تھا۔ لہذا سوال میں ذکر کردہ معاہدہ کی خلاف و روزی کرنے سے ***وغیرہ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہ ہو گی[1]۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

[1] ۔ جواب دیگر از***:

مذکورہ صورت میں معاہدے میں چونکہ ***وغیرہ نے اپنے ماموں *** کو شرط کی جزا کی جگہ اپنی مرضی کی عبارت لکھنے کی اجازت دی ہے جو کہ ایک عمومی اجازت ہے، معاہدے اور اس کے پس منظر میں طلاق کی اجازت کا کوئی ذکر نہیں۔ لہذا یہ عمومی اجازت طلاق کو شامل نہ ہو گی اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے سے ***وغیرہ کی بیویوں پر کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

چنانچہ فتاویٰ شامی (8/ 275) میں ہے:

و لو قال أنت وكيلي في كل شيئ جائز أمرك يصير وكيلاً في جميع التصرفات المالية كبيع و شراء و هبة و صدقة، و اختلفوا في طلاق و عتاق و وقف فقيل يملك ذلك لإطلاق تعميم اللفظ و قيل لا يملك ذلك إلا إذا دل دليل سابقة الكلام و نحوه و به أخذ الفقيه أبو الليث …. و الحاصل أن الوكيل وكالة عامة يملك كل شيئ إلا الطلاق و العتاق و الوقف و الهبة و الصدقة علی المفتی به.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved