• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

خرچہ نہ دینے کی بنیاد پر عدالتی فسخ نکاح کا حکم

استفتاء

*** جو ہماری بیٹی ہے اس کی ساس ہنسی خوشی ہمارے گھر  لے کر آئی تھی، یہیں پر کسی بات پر جھگڑا  کر کے ادھر ہی چھوڑ گئی، ہم نے بہت کوشش کی کہ یہ (***) آپ کی ہے اور آپ اسے گھر لے جاؤ، اب یہ آپ کی بیٹی ہے، لیکن وہ کسی کی بات سننے بغیر ہی چلی گئی۔ (***) بچی کو حمل تھا، پریشانی کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہو گئی، ہم نے *** کی ساس کو فون کر کے کہا کہ آپ کی بہو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، آ کر اسے دوائی وغیرہ دو، لیکن وہ نہیں آئے پھر اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گی، بہت انتظار کے بعد مجبوراً ہمیں اسے (***) کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا پڑا اور بچہ ضائع ہو گیا، پھر ہم نے ساس کو اطلاع کی انہوں نے کہا کہ آپ نے جان بوجھ کر  بچہ ضائع کروایا ہے، فون پر بہت جھگڑا کیا، دو چار دن گذر جانے کے بعد پھر ہم نے فون کیا کہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا، اسی میں اللہ کی رضا تھی، آپ آؤ اور اپنی بہو کو لے جاؤ، لیکن جواب آیا کہ ہم نے نہیں کر جانا، آپ اپنی بیٹی کو اپنے پاس رکھیں۔ ہم نے بار بار راضی نامہ کے لیے فون کیا، لیکن جواب میں انکار ہی تھا، تھک ہار کر 6 ماہ گذر جانے کے بعد ہم نے کہا کہ آپ نے گر نہیں لے کر جانا تو *** کو فارغ کر دو، جواب آیا نہ ہم نے لے کر جانا ہے اور نہ فارغ کرنا ہے۔

اسی دوران ہم نے لڑکے (وقاص) کو بھی کئی بار فون کیے کہ اگر آپ گھر بسانا چاہتے ہو تو آؤ، اپنی بیوی  کے  پاس آؤ اور راضی نامہ کرو، وہ آیا اور اس کی لڑکی سے بات ہوئی، لڑکی نے کہا مجھے اب علیحدہ رکھو، کیونکہ اب جب لاہور آ جاتے ہو تو آپ کے گھر والے مجھے مارتے ہیں، لیکن ہو بھی انکار  کر کے چلا گیا۔ اس کے بعد یا اس سے پہلے جب سے لڑکے کی ماں *** کو چھوڑ کر گئی ہے، لڑکے نے اپنی بیوی سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا، حالانکہ وہ لاہور میں رہتا تھا، انتظار کے بعد ہم نے عدالت کے دروازے پہ دستک دی، کیس ہوا، ہر تاریخ پر ہم گئے لیکن لڑکے والوں کی طرف سے کوئی نہیں آیا، پھر عدالت نے لڑکی کے حق میں فیصلہ دے دیا، پھر معاملہ کونسلر کے پاس آ گیا، نوٹس بھیجے گئے، کوئی نہیں آیا، پھر فون کیا، فون کونسلر نے کیا تھا جو ہمارے محلے کا ہے کہ عدالت نے فیصلہ لڑکی کے حق میں کر دیا ہے اور اگر آپ لڑکی کو بسانا چاہتے ہو تو آپ لوگ آؤ، اگر کوئی رضا مندی کی گنجائش ہوئی تو ہم پوری کوشش کریں گے، فون لڑکے کے ماموں زاد نے سنا اور ہر بار یہ کہہ دیتا کہ لڑکا اور ساس دونوں گھر پر نہیں ہیں، پھر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا، پھر کونسلر نے اخبار میں خبر دی تاکہ سارا واقعہ ان تک پہنچ جائے، پھر بھی ان کی طرف سے خاموشی تھی، کونسلر نے بھی لڑکی کے حق میں فیصلہ دے دیا، اور اب تک خاموشی ہی تھی، پھر کل ہم سامان لینے گئے تو ان لوگوں کا کہنا ہے کہ *** فارغ نہیں ہوئی۔ یہ سارا معاملہ آپ کے سامنے ہے، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ہماری رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چونکہ لڑکے کی طرف سے اصالۃً یا وکالۃً کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا، حالانکہ اس کی اطلاع کر دی گئی تھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا اپنا گھر بسانے اور خرچہ دینے پر تیار نہیں۔ ایسی صورت میں عدالت کا فسخ نکاح کا فیصلہ دینا درست ہے، یہ فسخ شوہر کی طرف سے ایک طلاق بائن شمار ہو گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved