• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

آڑھتیوں کا خریدار سے کمیشن لینا

استفتاء

1 ۔ *** ایک آڑھتی ہے جس کا کاروبار یہ ہے کہ کاشتکار اس کی دوکان پر فصل رکھتے ہیں اور خریدار وہاں آجاتے ہیں بولی والے آکربولی لگاتے ہیں اور سودا ہوجانے کے بعد وہ کاشتکار سے  اور بعض اوقات خریدار سے بھی فی من کے حساب سےکمیشن وصول کرتا ہے۔ نیز وہ یہ سہولت فراہم کرتا ہے کہ خریدار نے جو رقم دس پندرہ دن کے بعد ادا کرنی ہے وہ کاشتکار کو وہ رقم اپنے پاس سے اداکردیتا ہے۔ اور بعدمیں خریدار سے وصولی کرتا ہے۔کیا *** کا یہ کاروبار شرعاً درست ہے؟

2۔ اگر یہ درست ہے تو بسا اوقات ایسا ہوجاتا ہے کہ *** کے پاس کاشتکاروں کو ادا کرنے کیلئے رقم موجود نہین ہوتی ، تو وہ کسی انویسٹر کو کہتا ہے کہ آپ میرے اس سودے میں رقم لگالو، مجھے جتنا کمیشن ملے گا اس میں سے فی من 20 روپے آپ کو دوں گا۔ یا مثلاً کل کمیشن کا 60 فیصد آپ کو دوں گا۔ کیا یہ شراکت شرعاً جائز ہے؟ اگر نہیں تو اس کاروبار میں شراکت کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟

3۔ عموماً کاشتکار جب گنے یا کپاس وغیرہ کی گاڑی کسی مل یا فیکٹری میں فروخت کرتے ہیں تو وہ ادھار پر خریدتے ہیں۔ اور پرچی بناکردیدیتے ہیں۔ جو پرچی عام طور پر باہر موجود ایجنٹ خرید لیتے ہیں۔ اور کاشتکار کو کچھ کٹوتی کرکے نقد رقم اداکردیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہماری محنت کا معاوضہ ہے جو ہم نے مل مالک سے رقم وصول کرنے کیلئے کرنی ہے۔ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

4۔  بعض اوقات بیوپاری جب کھیت سے گاڑی لاد کرچلتا ہے تو وہ کسی انویسٹر سے رابطہ کرلیتا ہے جو اپنی دوکان پر موجود ہے۔ فون پر ہی سودا ہوجاتا ہے کہ یہ گاڑی جو فیکٹری میں مثلاً ایک لاکھ روپے کی فروخت ہونی ہے وہ انویسٹر اس سے 97،000 میں خریدلیتا ہے۔  اور اس کو کہتا ہے کہ فیکٹری میں میرے کھاتے میں یہ گاڑی  ڈلوا دو ، پرچی اس انویسٹر کے نام کی بنتی ہے اور وہ بیوپاری اس انویسٹر سے رقم لے لیتا ہے۔ اس کا حکم علماء سے پوچھا تو وہ فرماتے ہیں کہ گاڑی پر آپ کا قبضہ شرط ہے۔ لیکن عملاً ایسا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے کہ ایک ہی دن میں کئی مختلف جگہوں پر گاڑیاں جارہی ہوتی ہیں۔  اس کا کوئی شرعی حل تجویز فرمائیں۔

5۔ *** غلہ منڈی میں بروکر ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ اس کے پاس اپنا کوئی اسٹاک نہیں ہے، لیکن بڑے اسٹاک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے۔ جب کوئی گاہک اس کے پاس آتا ہے تو وہ اسٹاک ہولڈرز سے رابطہ کرتا ہے کہ اس وقت کیا ریٹ چل رہا ہے۔ جو ریٹ وہ بتلائیں اس پر کچھ کمیشن رکھ کر وہ گاہک سے سودا کرلیتا ہے۔ اور گاہک کو کہتا ہے کہ آپ گاڑی لیکر فلاں گودام پر جائیں اور یہ پرچی دے کر وہاں سے مال اٹھا لیں۔ کیا یہ صورت شرعاً جائز ہے؟ اگر نہیں تو اس کی ممکنہ جائز صورت کیا ہوگی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آڑھتی کاشتکار کے وکیل اور ایجنٹ ہوتے ہیں اور صرف اسی سے اپنی اجرت وصول کر سکتے ہیں۔ لہذا

1۔ *** کا کاشتکار سے کمیشن وصول کرنا جائز ہے، لیکن خریدار سے کمیشن لینا *** کے لیے جائز نہیں۔ نیز اگر *** اپنی خوشی سے

کاشتکار کو فی الحال رقم ادا کر دے اور خریدار سے بعد میں وصول کر لے تو یہ بھی درست ہے۔

2۔ یہ شراکت جائز نہیں۔ اس کاروبار میں شراکت کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ آڑھتی کاشتکار سے مال خرید لیا کرے اور پھر نفع رکھ کر آگے فروخت کر دیا کرے، اس صورت میں کسی اور کی رقم انوسِٹ کی ہو تو اس کو بھی نفع میں فیصد کے لحاظ سے شریک کر

سکتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں آڑھتی کو  کاشتکار سے کسی قسم کا کمیشن لینا جائز نہ ہوگا۔

3۔ یہ طریقہ نا جائز ہے اور سود کا ہے کیونکہ ایجنٹ نے مثلاً 100 روپے کی پرچی 98 روپے میں خریدی تو سود اسی وقت بن گیا۔

4۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ قبضہ سے پہلے فروخت کرنا جائز نہیں، لیکن بعض دیگر ائمہ کے نزدیک کھانے کی اشیاء کے علاوہ میں قبضہ سے پہلے بھی فروخت کر سکتے ہیں، لہذا جہاں مجبوری ہو وہاں ان حضرات کے قول پر عمل کر سکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہاں گاڑی ہو وہاں فون پر کسی ایسے شخص کو جو کہ نہ بیو پاری ہو اور نہ اس کا وکیل ہو اسے اپنی طرف سے قبضے کا وکیل بنا دیں اور پھر اس کے قبضہ کر لینے کے بعد اس گاڑی کو آگے فروخت کر دیں۔

5۔ اس کا حکم بھی نمبر 4 والا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved