• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیرون ممالک کے سپر اسٹور میں ملازمت کرنا

استفتاء

میں جرمنی میں زیر تعلیم ہوں۔ فی الحال میں بے روز گار ہوں۔ کیونکہ جہاں بھی میں ملازمت کے لیے درخواست دیتا  ہوں تو وہ جرمن زبان میں روانی کا سوال کرتے ہیں اور مجھے جرمن میں روانی حاصل نہیں۔ البتہ ملازمت کے کچھ مواقع سپر سٹوروں میں ہیں، وہاں وہ کھانے پینے سے لے کر کپڑے وغیرہ تک ہر طرح کی چیز فروخت کرتے ہیں ہر طرح کے مشروبات (دودھ، کولا، بیئر، ووڈکا) اور گوشت (مرغی، خنزیر، بڑا گوشت وغیرہ) دستیاب ہیں۔ کیا میں وہاں ملازمت کر سکتا ہوں؟

کام کی تفصیل یہ ہے کہ کیشیئر، سامان کی طاقوں کی دیکھ بھال، سامان اٹھانا، لانا لے جانا، صفائی وغیرہ۔ کام بدلتے رہتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جن سپر اسٹوروں کا تذکرہ سوال میں ہے اس طرح کے سپر اسٹوروں پر آپ ملازمت کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اگرچہ ان اسٹوروں پر بعض حرام اور ناجائز اشیاء کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے لیکن ایک تو یہ اشیاء دیگر اشیاء کے مقابلے میں مغلوب ہیں اور دوسرے مذکورہ صورت میں ان حرام اشیاء کے ساتھ عقد ملازمت کا تعلق براہ راست نہیں ہے بلکہ ضمنی ہے اور تیسرے یہ کہ بعض کاموں میں مثلاً کیشیئر، سامان کی دیکھ بھال، صفائی وغیرہ میں تو ان حرام اشیاء کے ساتھ عقد ملازمت کا ضمنی تعلق بھی بہت دور کا رہ جاتا ہے۔ [1]  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

[1]۔ سپر سٹور سے متعلق جواب کے حوالے

تبیین الحقائق (4/ 44) میں ہے:

قال بعد قوله: لم يجز بيع الميتة …. لعدم ركن البيع و هو مبادلة المال بالمال، و بيع هذه الأشياء باطل لما ذكرنا. …………. و الأصل فيه أن البيع بمال عند أحد كالحر و الدم و الميتة التي ماتت حتنف أنفها و المدبر و أم الولد و المكاتب باطل، و إن كان مالاً عند البعض كالخمر و الخنزير و الميتة التي لم تمت حتف أنفها مثل الموقوذة فإن هذه الأشياء مال عند أهل الذمة.

فتح المعین (2/ 66، ط: سعید)

تحت قوله (فبيع الميتة) يعني التي ماتت حتف أنفها أما غيرها مثل الموقوذة فمال عند أهل الذمة كالخمر. زيلعي

فتاویٰ شامی (7/ 241، ط: رشیدیہ کوئٹہ) میں ہے:

قوله (كخمر و خنزير و ميتة لم تمت حتف أنفها) بل بالحنق و نحوه فإنها مال عند ذمي كخمر و خنزير. و قال في الشامية تحت قوله: (و ميتة لم تمت حتف أنفها) هذا في حق المسلم أما الذمي ففي رواية بيعها صحيح، و في أخرى فاسد كما قدمناه عن البحر، وظاهره أن اختلاف الرواية في الميتة فقط، أما الخمر فصحيح.

شرح المجلہ (2/ 103، ط: رشیدیہ کوئٹہ) میں ہے:

و قول المجلة باع جيفة أي ميتة ماتت حتف أنفها، أما لو بسبب غير الذكاة كالمنخنقة و الموقوذة و المتردية، ففي حق المسلم لا فرق بينها و بين الميتة حتف أنفها من حيث بطلان البيع … إلى قوله: و أما في غير المسلم ففي التجنيس جعله قسماً من الصحيح لأنهم يدينونه و لم يحك فيه خلافاً و جزم في الذخيرة بفساده و جعله في البحر من اختلاف الروايتين.

بزازیہ حاشیہ عالمگیری (4/ 372، ط: رشیدیہ کوئٹہ) میں ہے:

و بيع المجوسي ذبيحة أو ما هو ذبح عنده كالخنق من كافر جاز عند الثاني.

چنانچہ فتاویٰ عثمانی (3/ 399) میں ہے:

’’سوال: محرم مفتی صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ایک صاحب جو کینیڈا میں حال میں معاش کے لیے گئے ہیں ان کی طرف سے سوال کیا ہے کہ کیا فرماتی ہے شریعت حضور ﷺ کی اس بارے میں ان کو ایک ایسی کمپنی میں ملازمت کی پیش کش ہوئی ہے جو گوشت پیک کر کے سپلائی کرتی ہے، ظاہر ہے کہ کینیڈا میں یہ گوشت عام طور پر حلال نہیں ہوتا اور اس کی تمام چیزیں جو وہ کمپنی بناتی ہے وہ حلال نہیں ہیں۔ اس کمپنی کا جس میں ان صاحب کو ملازمت کی پیش کش کی گئی ہے سوائے گوشت اور گوشت کی دیگر خوردنی مصنوعات کو بنانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے۔ ان صاحب کو اس کمپنی کے اکاؤنٹ ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کی پیش کش ہے۔ ان کا پوچھنا یہ ہے کہ کیا ایسی کمپنی میں ملازمت ان کے لیے جائز ہو گا یا نہیں؟ خاص طور پر ایسی صورت میں کہ ابھی انہوں نے ہجرت کی ہے اور وہ معاش کی تلاش میں کچھ دنوں سے پھر رہے ہیں اور انہیں کوئی خاطر خواہ ملازمت نہیں مل رہی، جواب ارشاد فرما کر مشکور فرمائیں۔

جواب: صورت مسئولہ میں مذکورہ کمپنی کے اکاؤنٹ ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، وجہ یہ ہے کہ غیر مذبوح گوشت اگرچہ ہمارے نزدیک حلال نہیں اور اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں، لیکن غیر مسلموں کے نزدیک چونکہ جائز ہے، اس لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے ان کے درمیان ہونے والی بیع کو نافذ قرار دیا ہے اور اس کی مالیت کا اعتبار کیا ہے۔ لہذا اس خرید و فروخت سے انہیں جو رقم حاصل ہوئی ہے وہ عقد باطل کے ذریعے نہیں ہوئی۔ البتہ کسی مسلمان کو بذاتِ خود اس خرید و فروخت میں ملوث ہونا جائز نہیں، لیکن اکاؤنٹ کی ملازمت میں اگر مسلمان کو خود یہ گوشت بیچنا نہ پڑے بلکہ صرف کمپنی کے حسابات رکھنے پڑیں تو یہ اعانت علی المعصیۃ میں داخل ہو کر حرام نہ ہو گا۔ کیونکہ یہ اعانت بعیدہ ہے۔ لہذا حاجت کے وقت اس ملازمت کی گنجائش معلوم ہوتی ہے تاہم پرہیز میں احتیاط ہے اور اس معاملے میں دوسرے اہل فتویٰ علماء سے بھی استصواب کر لینا چاہیے، اگر ان کا جواب اس سے مختلف ہو تو ہمیں بھی مطلع کر دیا جائے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved