• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مختلف مواقع پر بیوی کو مختلف الفاظ طلاق کہنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے شوہر نے کئی مرتبہ مجھے طلاق دی ہے جس کی تفصیل یہ ہے :

شادی کی پہلی رات میرے شوہر نے کہا تھا کہ میں نے تمہیں بے کار کرنا تھا کر دیا اب تم میری طرف سے فارغ ہو اب تم جہاں مرضی جائو جو مرضی کرو میں تمہارا کچھ نہیں لگتا تم آزاد ہو میری طرف سے۔ اس کے ایک ماہ  بعد ایک دن پھر کہا تھا کہ اب نکاح ٹوٹ گیا تم میرے نکاح میں نہیں رہی اب تم جس مرضی کے پاس جائو آزاد ہو میری طرف سے میں تمہارا کچھ نہیں لگتا تم فارغ ہو میری طرف سے۔ اس کے تقریباً تین ماہ (یعنی شادی والی رات کے تقریباً چار ماہ) بعد پھر مجھے کہا تھا کہ تم نے زبان کیوں کھولی ہے اگر سب کے سامنے بلاو گی تو میں یہی کہوں گا کہ تم فارغ ہو میری طرف سے آزاد ہو۔ پھر ایک دن تقریباً شادی والی رات کے آٹھ مہینے بعد کہا تھا کہ میں نے تو تمہیں طلاق دے رکھی ہے پھر کیوں آتی ہو باربار میرے پاس میں نے پہلے دن سے ہی طلاق دے دی تھی میں اب ایک اور شادی کروں یا چھ شادیاں کروں تم کون ہوتی  ہواعتراض کرنے والی جب میں تمہارا کچھ لگتا ہی نہیں۔اور ایک بات بھائی کے پاس کہی تھی اگر وہ بات بھائی کہہ دے کہ میں نے ان کے پاس کہی ہے تو پھر بھی تمہیں طلاق۔اب میرا شوہر ان تمام باتوں سے انکار کرتا ہے اب میرے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

لڑکے کا بیان

لڑکی کہتی ہے کہ میں نے اس کو طلاق دی ہے لیکن میں یہ اقرار کرتا ہوں کہ میں نے یہ الفاظ اس کو نہیں کہےلڑکی کہتی ہے کہ یہ الفاظ  اس کو تین چار مرتبہ کہے ہیں لیکن یہ الفاظ میرے منہ سے ایک بار بھی نہیں نکلے میں اس بات کا اقرار کرنے کے لیے جو حلف بھی لینا چاہتے ہوں میں وہ حلف دینے کے لیے تیار ہوں

لڑکی یہ نہیں کہتی کہ میں اس کو طلاق کے الفاظ کہے ہیں وہ یہ کہتی ہے کہ میں نے اس کو یہ کہا ہے کہ فارغ کرتا ہوں اور یہ بات بھی میں نے اس سے نہیں کہی میں فارغ کرنے والے الفاظ پر بھی اقرار کرتا ہوں اور حلف بھی دیتا ہوں جو آپ لوگ لینا چاہتے ہوں۔

چند وضاحتیں:

"اور ایک بات بھائی سے کہی تھی اگر وہ بات بھائی کہہ دے کہ میں نے اسے کہی ہے تو پھر بھی تمہیں طلاق”

اس بات کی تفصیل یہ ہے کہ لڑکی کا ایک ماہ کا حمل ضائع ہو گیا تھا ،لڑکے نے لڑکی کے بھائی سے کہا کہ لڑکی نے یہ حمل خود جان کر ضائع کیا ہے لڑکی کے بھائی نے لڑ کے سے کہا کہ اچھا  میں لڑکی سے اپنی بیوی کے ذریعے معلومات لیتا ہوں، پھر لڑکی  کے بھائی نے معلومات لیں، تو لڑکی نے یہ اطلاع دی کہ میں نے جان بوجھ کر حمل ضائع نہیں کیا۔

پھر ایک موقع پر لڑکے اور لڑکی میں جھگڑا ہوا تو لڑکی نے لڑکے (خاوند) سے کہا کہ آپ نے حمل ضائع ہونے والی بات بھائی سے کہی تھی، تو لڑکے (خاوند) نے کہا کہ میں نے حمل ضائع ہونے والی بات بھائی سے نہیں کہی، اگر لڑکی کا بھائی کہہ دے کہ وہ بات یعنی حمل ضائع ہونے والی بات میں نے لڑکی کے بھائی کے پاس کہی ہے، تو پھر بھی تمہیں طلاق۔ اورلڑکی کا بھائی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ لڑکے نے حمل ضائع ہونے والی بات کہی ہے۔

2: لڑکی کو جب شادی کی پہلی رات ہی شوہر نے کہا تھا کہ "میں نے تمہیں بے کار کرنا تھا، کر دیا، اب تم میری طرف سے فارغ ہو الخ”۔ اس کے باوجود لڑکی اتنے عرصے تک لڑکے کے ساتھ کیوں رہی؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکی یہ نہیں چاہتی تھی کہ لڑکی کی ماں اور لڑکی کی ساس (جو کہ لڑکی کی سگی خالہ بھی ہیں) کے درمیان

لڑائی جھگڑا ہو، لیکن جب لڑکی کو لگا کہ اس کی جان کو خطرہ ہےتو پھر اس نے یہ ساری بات واضح کی۔

3۔ شادی 10نومبر(۲۰۱۴) کو ہوئی۔ شادی  کے دوسرے دن پہلی ماہواری آئی تقریبا 7دن۔ اگلی 12 دسمبر کو آئی، تیسری پھر 22 جنوری کوئی آئی، اور 28 جنوری کو عدت ختم ہو گئی۔

نوٹ: یہ الفاظ انہوں نے جب بھی کہے ہیں لڑائی جھگڑے کے دوران کہے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں لڑکی کے بقول شادی کی پہلی رات شوہر نے یہ الفاظ کہے :

 "میں تمہیں بیکار کرنا تھا، کر دیا، اب تم میری طرف سے فارغ ہو اب تم جہاں مرضی جاو جو مرضی کرو میں تمہارا کچھ نہیں لگتا تم آزاد ہو میری طرف سے”۔

2۔ اس کے بعد ایک دن پھر یہ الفاظ کہے :

"اب نکاح ٹوٹ گیا تم میرے نکاح میں نہیں رہی اب تم جس مرضی کے پاس جاو آزاد ہو میری طرف سے میں تمہارا کچھ نہیں لگتا تم فارغ ہو میری طرف سے”،

3۔  اس کے بعد پھر یہ الفاظ کہے :

"تم نے زبان کیوں کھولی ہے اگر سب کے سامنے بلاو گی تو میں یہی کہوں گا کہ تم فارغ ہو میری طرف سے آزاد ہو”۔

4۔ پھر ایک دن یہ الفاظ کہے :

"میں نے تو تمہیں طلاق دے رکھی ہے پھر کیوں آتی ہو باربار میرے پاس میں نے پہلے دن سے ہی طلاق دے دی تھی میں اب ایک اور شادی کروں یا چھ شادیاں کروں تم کون ہوتی  ہواعتراض کرنے والی جب میں تمہارا کچھ لگتا ہی نہیں”۔

5۔ ایک مرتبہ پر یہ بات بھی کہی :

"میں نے حمل ضائع ہونے والی بات بھائی سے نہیں کہی، اگر لڑکی کا بھائی کہہ دے کہ وہ بات یعنی حمل ضائع ہونے والی بات میں نے لڑکی کے بھائی کے پاس کہی ہے، تو پھر بھی تمہیں طلاق”، اور لڑکی کا بھائی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ لڑکے نے حمل ضائع ہونے والی بات کہی ہے۔”

مذکورہ صورت میں چونکہ عورت نے یہ الفاظ خود سنے ہیں اس لیے عورت کے حق میں ایک طلاق بائنہ واقع ہوئی ہے ۔ جس کا حکم یہ ہے کہ نکاح ختم گیا ہے۔ عدت گزرنے کے بعد عورت آگے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ اور اگر میاں بیوی اکھٹے رہنا چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ۔ چونکہ مذکورہ صورت میں صرف پہلی اور دوسری دفعہ کے الفاظ نکاح یا عدت میں کہے گئے ہیں۔ باقی تیسری چوتھی اور پانچویں دفعہ کے الفاظ عدت کے بعد کہے گئے ہیں اس لیے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

مذکورہ الفاظ کنائی طلاق کے ہیں اور شوہر کی نیت بھی  طلاق کی ہے۔چنانچہ چوتھی دفعہ کے الفاظ میں شوہر نے طلاق کا واضح اقرار کیا ہے۔اگر چہ شوہر ان تمام باتوں کا منکر ہے لیکن چونکہ عورت نے یہ تمام الفاظ از خود سنے ہیں اس لیے عورت کے حق میں یہ معتبر ہو نگے۔

وَالْمَرْأَةُ كَالْقَاضِي إذَا سَمِعْته أَوْ أَخْبَرَهَا عَدْلٌ لَا يَحِلُّ لَهُ تَمْكِينُهُ۔ (4/ 449)

2۔ طلاق کی عدت تو شادی کی پہلی رات ہونے والی طلاق کے بعد سے شمار ہو گی۔ البتہ چونکہ اس کے بعد بھی میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے ہیں، اس لیے ایک عدت مزید پوری کرنی پڑے گی، جس کی ابتداء میاں بیوی کی عملی جدائی کے بعد سے ہو گی۔ (یعنی تین ماہواریاں جدائی کے بعد)۔

(وإذا وطئت المعتدة بشبهة).ولو من المطلق (وجبت عدة أخرى ) لتجدد السبب (وتداخلتا). (الدر المختار: 5/ 202)

(و المرئي منهما) قال العلامة الشامي تحته …. وفي البحر عن الخانية : وإذا تمت عدة الأول حل للثاني أن يتزوجها لا لغيره ما لم تتم عدة الثاني بثلاث حيض من حين التفريق ، وإذا كان طلاق الأول رجعيا كان له أن يراجعها في عدته ، ولا يطؤها حتى تنقضي عدة الثاني ا هـ ملخصا. (رد المحتار: 5/ 203)

( و ) مبدؤها ( في النكاح الفاسد ) بعد التفريق من القاضي بينهما ، ثم لو وطئها حد جوهرة وغيرها ، وقيده في البحر بحثا بكونه بعد العدة لعدم الحد بوطء المعتدة ( أو ) المتاركة . أي ( إظهار العزم ) من الزوج (على ترك وطئها ) بأن يقول بلسانه : تركتك بلا وطء ونحوه ، ومنه الطلاق وإنكار النكاح لو بحضرتها وإلا لا ، لا مجرد العزم لو مدخولة وإلا فيكفي تفرق الأبدان . (الدر المختار: 5/ 208) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved