• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

چند وجوہات کی بناء پر خلع کرنا اور خلع کے احکام

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسمی عبد العلیم بن محمد اعجاز کا نکاح گواہوں کی موجودگی میں 27 ستمبر 2016ء کو شہلہ گل بنت نواب خان سے منعقد ہوا، 25 ہزار روپے بشکل سونے کے لاکٹ کے عوض میں۔ پہلی ہی ملاقات کے وقت لڑکی میرے نکاح میں رہنے پر راضی نہیں ہے۔ مختلف بہانے سے اظہار ہوتا کہ میں فی الحال ماں نہیں بننا چاہتی، مجھے آزاد زندگی گذارنا پسند ہے، چار دیواری کے اندر پابند رہ کر زندگی گذارنا مشکل ہے۔ میرے نکاح میں نہ رہنے کی اصل وجہ ایک مرتبہ پیار کے ساتھ پوچھی تو بتایا کہ ایک لڑکے سے سات سال سے میرا تعلق بھی اکثر ملاقات بھی رہی ہے اب بھی رابطے میں ہیں لہذا میں آپ کی خاطر اس کو نہیں چھوڑ سکتی۔ اس لڑکے نے بھی اس لڑکی کے ساتھ تعلق اور کئی مرتبہ اس کو پیسے دینے کا اقرار کیا ہے اور اس تعلق کا لڑکی کے والدین، بہن بھائیوں وغیرہ کو بھی معلوم ہے لڑکی کی عادات سے واقف ہیں۔ میرے نکاح میں رہ کر بھی ایک دن  چلی گئی بغیر اجازت و اطلاع اور تین دن بعد جب واپس آئی تو بھائیوں نے کہا کہ خالہ کے گھر سے تلاش کر کے لائے خالہ کے گھر تھی۔ جبکہ خود کہتی ہے میں اپنے کسی دوست کے ہاں رہی ہوں خالہ اور والدین کے ہاں نہیں گئی اور اب بھی جانے پر معافی کے باوجود وہی ضد برقرار ہے۔ لہذا اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ جبکہ بار بار  پیار سے سمجھانے کے باوجود اپنی ضد پر قائم ہے:

1۔ کیا میں اس کو طلاق دے سکتا ہوں؟ جبکہ مطالبہ طلاق لڑکی نے کیا ہے۔

2۔ کیا بطور خلع اس سے یا اس کے والدین اور بھائیوں سے رقم کا مطالبہ کر سکتا ہوں اور اس رقم کی حد کیا ہو گی؟اگر مطالبہ کر سکوں تو لڑکی کہہ رہی ہے جو کہو گے یا عدالت میں لکھواو گے میں ہر ذمہ داری لینے کو تیار ہوں بس طلاق دے دو۔

3۔ مہر کا کیا حکم ہے؟ جبکہ صحبت ملاقات اور ادائیگی ہو چکی ہے۔

4۔ جہیز کے سامان کا کیا حکم ہے؟

5۔ ایک موٹر سائیکل جو لڑکی کے والدین لڑکے کو دیتے ہیں کا کیا حکم ہے؟ جبکہ وہ میرے ہی نام پر رجسٹرڈ بھی ہے؟ اگر موٹر سائیکل ان کو دینی ہے تو اس پر جو خرچہ ہوا وہ ان سے لے سکتا ہوں یا نہیں؟

6۔ پہلی ملاقات پر لڑکی کو جو سونے کی انگوٹھی دی اور بری کا دوسرا سامان دیا اس سب کا کیا حکم ہے؟ واپس لے سکتا ہو یا نہیں؟

براہ مہربانی مذکورہ مسائلہ کی شریعت کے مطابق رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں آپ اس کو طلاق دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

2۔ بطور خلع رقم کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ نیز اس رقم کی کوئی حد مقرر نہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ مقدار مہر سے زیادہ نہ لیں۔

3۔ مہر کی ادائیگی تو واجب ہے لیکن اگر آپ بدل خلع میں مہر معاف کرا لیں تو یہ بھی ٹھیک ہے۔

4۔ جہیز لڑکی کا ہو گا۔

5۔ موٹر سائیکل لڑکے کی شمار ہو گی کیونکہ عرف و رواج بھی یہی ہے۔ اور پھر لڑکے کے نام پر رجسٹرڈ بھی ہے اور اس پر خرچہ بھی لڑکے نے کیا ہے۔

6۔ بری کا سامان تو لڑکی کا ہے کیونکہ عرف و رواج یہی ہے۔ البتہ سونے کی انگوٹھی کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر دیتے وقت کچھ وضاحت کر کے دی تھی تو اسی کے مطابق عمل ہو گا یعنی اگر ہدیہ (گفٹ) کہہ کر دی تھی تو لڑکی کی ہے ورنہ لڑکے کی ہو گی۔ اور اگر دیتے وقت کچھ وضاحت نہیں کی تھی تو جو لڑکے والوں کا عرف و رواج ہو اسی کے مطابق عمل ہو گا یعنی لڑکے کے خاندان والے اگر اس موقعہ پر دی ہوئی اس انگوٹھی کو لڑکی کی سمجھتے ہیں تو یہ انگوٹھی لڑکی کی ہے ورنہ لڑکے کی ہو گی۔

  1. سورة البقرة: 229

فان خفتم الّا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به.

  1. و في رد المحتار (5/ 86):

(للشقاق) أي لوجود الشقاق و هو الاختلاف و التاخصم و في القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف ان يجتمع اهلهما ليصلحوا بينهما فإن لم يصطلحا جاز الطلاق و الخلع … و هذا الحكم المذكور في الآية.

3۔ في الدر المختار (5/ 95):

(و كره) تحريماً (أخذ شيء) و يلحق به الإبراء عما لها عليها (إن نشز و إن نشزت لا) و لو منه نشوز أيضاً و لو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح. و صحح الشمني كراهة الزيادة و تعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية و به يحصل التوفيق.

و في الهندية (1/ 488):

إذا تشاق الزوجان و خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن يفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة.

و أيضا فيه (1/ 488):

و إن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر و لكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء.

فتاویٰ عثمانی (2/ 446) میں ہے:

صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ واقعات درست ہیں تو زیادتی لڑکی والوں کی طرف سے ہے۔ لہذا اگر آپ پانچ ہزار روپے پر خلع  کریں تو آپ کے لیے  جائز ہے۔ البتہ افضل یہ ہے کہ مہر معاف کروانے پر اکتفا کر لیں اور اس سے زیادہ کچھ نہ لیں۔

  1. و في الدر المختار (4/ 309):

كل أحد يعلم أن الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله و إذا مات يورث عنها.

5۔ و في الدر المختار (4/ 300):

و شرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضاً و ركنها هو الإيجاب و القبول و حكمها ثبوت الملك للموهوب له و تصح بإيجاب كوهبت و نحلت.

6۔ و في الفتاوى الهندية (1/ 327):

و إذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه إذا أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك كذا في فصول العمادية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved