• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’میں تینوں طلاق دے دتی اے‘‘رجوع کے بعد’’میں تینوں طلاق دے دتی اے، ہن تو میرے ولوں فارغ ایں، جا اپنے میکے واپس چلی جا‘‘ کے الفاظ استعمال کرنے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم

ایک مسئلہ کے متعلق شرعی جواب مطلوب ہے۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے  ایک عزیز  ****** کی شادی تقریبا بارہ سال قبل ہماری ایک عزیزہ مسماۃ *** سے منعقد ہوئی۔ پیشہ کے اعتبار سے ***ایک  الیکٹریشن ہے۔کبھی کبھار کچھ کام کاج کرنے کو دل کیا تو کر  لیا ورنہ بسا اوقات کمانے کے دھندے کو چھوڑ کر فارغ بیٹھ کر کھانے کا عادی تھا۔  اور ساتھ ہی کچھ نشہ آور ادویات پینے کی بھی عادت تھی۔ ایسے میں گھر کے مالی حالات تنگ ہونے کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی بات پر لڑنے ، گالی گلوچ کرنے اور مارنے پیٹنے کی عادت تھی۔ جب کبھی مالی حالات کچھ زیادہ تنگ ہوئے تو بیوی سے ناراض ہو کر اسے میکےبھیج دیا۔ بیوی یا بچے بیمار ہو جائیں تو علاج معالجہ کی کچھ فکر نہیں۔ بچوں کی سکول کی عمر ہوئی تو سکول کے اخراجات اٹھانا گوارا نہیں۔

اب سے تقریباً سات سال قبل دونوں میاں بیوی کے درمیان کسی بات پر کوئی چپقلش ہوئی جس پر *** نے *** کو یہ جملہ بولا: ’’میں تینوں طلاق دے دتی اے‘‘ (میں نے تجھے طلاق دے دی ہے)۔ اس کے بعد مسماۃ *** اپنے میکے آ گئی۔ اس کے بعد خاندان کے بڑوں نے دونوں میاں بیوی کو سمجھا  کر دونوں کے درمیان صلح کروا دی۔ طلاق کے ایک ماہ بعد صلح ہوئی تھی اور دونوں دوبارہ سے میاں بیوی بن کر رہنے لگے۔ اس کے بعد سے اب تک دونوں کے تین بیٹے بھی ہیں۔

اس کے بعد اب سے ایک ماہ قبل تقریباً سترہ رمضان المبارک کو دونوں میاں بیوی کے درمیان پھر سے کچھ جھگڑا ہو گیا۔اور *** نے پہلے مسماۃ *** کو بولا کہ ’’میں تینوں طلاق دے دتی اے، ہن توں میرے ولوں فارغ ایں، جا اپنے میکے واپس چلی جا‘‘ (میں نے تجھے طلاق دے دی ہے، اب تم میری طرف سے فارغ ہو، جاؤ اپنے میکے چلی جاؤ)۔

اس کے بعد ****** نے *** کے چچا کو کال کی اور ان کو کہا کہ میں نے *** کو بہت سمجھایا ہے، پیار سے بھی اورسختی سے بھی، بارہ سال سے میں برداشت کر رہا ہوں۔ اب میری برداشت سے باہر ہو گیا۔ ’’اس واسطے ہن میں اینوں طلاق دے دتی اے، تسی آ کے تے اینوں لے جاؤ‘‘ (اس لیے اب میں نے اس کو طلاق دے دی ہے، اب آپ اس کو آ کے لے جائیں)۔

اس کے بعد ****** نے اپنی بہن (جو کہ *** کے چچا کی بہو بھی ہے) کو کال کی اور اس کو بھی کال پہ یہی الفاظ کہے کہ میں

نے *** کو بہت سمجھایا ہے، پیار سے بھی  اورسختی سے بھی، بارہ سال سے میں برداشت کر رہا ہوں۔ اب میری برداشت سے باہر ہو گیا۔ یہ میری بات نہیں مانتی۔ جس چیز سے میں منع کرتا ہوں اس سے باز نہیں آتی۔ ’’اس واسطے ہن میں اینوں فارغ کر دتا اے‘‘ (اس لیے اب میں نے اسے فارغ کر دیا ہے)۔ اس پر ****** کی بہن نے کہا کہ بھائی کیا آپ ہوش میں ہیں؟ آپ کو پتہ ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اس پر ***نے کہا کہ ہاں میں اپنے پورے ہوش و حواس میں بات کر رہا ہوں، اور پوری طرح سوچ سمجھ کر رہا ہوں۔

اس کے بعد ****** نے *** کے بھائی کو کال کر کے بھی یہی الفاظ دہرائے کہ میں نے *** کو بہت سمجھایا ہے، پیار سے بھی  اور سختی سے بھی، بارہ سال سے میں برداشت کر رہا ہوں۔ اب میری برداشت سے باہر ہو گیا۔ ’’ ہن میرے ولوں اے فارغ اے، تسی آ کے تے اینوں لے جاؤ‘‘ (اب میری طرف سے یہ فارغ ہے، اب آپ اس کو آ کے لے جائیں)۔ اس پہ *** کے بھائی نے کہا کہ زیادہ غصہ نہ ہوں، چھوٹی موٹی باتیں گھروں میں ہوتی رہتی ہیں،کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائے گی،آپ  کچھ دن صبر کر لیں، عید پہ وہ ہمارے پاس آئے گی تو ہم سمجھا دیں گے۔

اس کے بعد *** ****** کے پاس ہی رہتی رہی، یہاں تک کہ عید الفطر کے کچھ دن کے بعد *** *** کے ساتھ *** کے میکے اسے ملانے  کے لیے لے آیا اور دو دن رہ کر بیوی بچوں کو کچھ دن ننھیال میں رہنےکے لیے چھوڑ گیا۔ بظاہر دونوں کے رویے ایک عام میاں بیوی کی طرح تھے، کہ جیسے ان کے درمیان کوئی جھگڑا تھا ہی نہیں۔ کچھ دن کے بعد *** کے بھائی نے ***سے  اس کے طلاق والے مکالمہ کے متعلق سوال کیا کہ اب آپ کی کیا پوزیشن ہے؟ تو اس پہ ***نے کہا کہ میں اپنے اس وقت کے بولے ہوئے الفاظ سے انکاری نہیں ہوں، میں مانتا ہوں کہ وہ میں نے کہے ہوئے ہیں، لیکن اب ہماری صلح ہو گئی ہے۔

اب سوال طلب امور یہ ہیں:

1۔ کہ ****** کے بولے ہوئے الفاظ سے اس کی بیوی *** پر طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اگر واقع ہوئی تو کتنی؟

2۔ اب اگر ***اور *** باہم میاں بیوی بن کے رہنا چاہیں تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟

3۔ اور*** کے لیے عدت کا کیا حکم ہو گا؟ کتنی ہو گی؟ اور کب سے شمار کی جائے گی؟ اور کہاں گزارے گی؟ شوہر کے گھر میں یا میکے میں؟

4۔ دورانِ عدت اور عدت کے بعد *** اور اس کے تین بیٹوں کا نان و نفقہ کس کے ذمہ ہو گا؟

5۔ *** کے تینوں بیٹوں کی عمریں بتدریج آٹھ سال، پانچ سال اور دو سال ہیں۔ بعد از عدت میاں اور بیوی  دونوں میں سے  ان بچوں کو رکھنے کا حق کس کا ہو گا؟

6۔ مذکورہ الفاظ بولنے کے بعد پندرہ یا بیس دن تک جو دونوں میاں بیوی ایک ہی گھر میں اکٹھے رہے تو اس کا کیا حکم ہو گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔2)۔ مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے۔ لہذا اب دو گواہوں کی موجودگی میں نیا مہر مقرر کر کے دوبارہ نکاح کر کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ:  ایک طلاق رجعی شوہر کے ان الفاظ سے ہوئی ’’ میں تینوں طلاق دے دتی اے‘‘ اس طلاق کے بعد ایک مہینہ کے اندر چونکہ صلح ہو گئی اس لیے شوہر کا رجوع کرنا درست ہوا۔ اس کے تقریباً سات سال بعد رمضان میں شوہر نے یہ الفاظ کہے کہ ’’میں تینوں طلاق دے دتی اے، ہن تو میرے ولوں فارغ ایں، جا اپنے میکے واپس چلی جا‘‘ ان تمام الفاظ سے ایک طلاق بائنہ ہوئی۔ کیونکہ صریح رجعی کے بعد اگر کنائی طلاق کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو بالعموم ان الفاظ سے کوئی نئی طلاق واقع نہیں ہوتی البتہ یہ الفاظ سابقہ رجعی طلاق کو بائنہ بنا دیتے ہیں، جس کی تفصیل امداد المفتین (2/ 511) میں ہے۔ اور باقی جملے جو  مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے سامنے کہے گئے ہیں وہ چونکہ سابقہ طلاق ہی کی خبر ہے اس لیے ان جملوں سے کوئی نئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

3۔ عدت گذارنی ہو گی۔ عدت تین ماہواریاں ہوں گی۔ سترہ رمضان کے قریب دی گئی طلاق کے بعد سے شمار ہو گی۔ اور یہ عدت عورت شوہر کے گھر میں گذارے گی۔

نوٹ: طلاق کی عدت تو سترہ رمضان کے قریب دی گئی طلاق کے بعد تین ماہواریاں گذارنے سے ختم ہو جائے گی البتہ اگر عورت نے سابقہ شوہر کے علاوہ کسی اور جگہ نکاح کرنا ہو تو پھر آخری ہمبستری کے بعد تین ماہواریاں گذارنا بھی ضروری ہیں۔

(و إذا وطئت المعتدة بشبهة) و لو من المطلق (وجبت عدة أخرى) و تداخلتا. و في الشامية: و ذلك كالموطوءة للزوج … أو بعد ما أبانها بألفاظ الكناية. (رد المحتار: 5/ 203)

4۔ عدت کےدوران نفقہ شوہر کے ذمہ ہو گا البتہ عدت کے بعد بیوی کا نفقہ شوہر کے ذمہ نہ ہو گا۔ بیٹوں کا نفقہ بالغ ہونے تک باپ کے ذمہ ہے اس کے بعد بیٹوں کا نفقہ خود ان کے اپنے ذمہ ہو گا۔ باپ کے ذمہ نہ ہو گا۔

المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة و السكنى كان الطلاق رجعياً أو بائناً أو ثلاثاً. (الهندية: 1/ 557)

و لا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن يكون الولد عاجزاً … إلخ (الهندية: 1/ 563)

5۔ سات سال تک بیٹوں کی پرورش کا حق ماں کو ہوگا اور سات سال کے بعد پرورش کا حق باپ کو ہو گا۔

(و الحاضنة) أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى تستغني عن النساء و قدر بسبع و به يفتى. (رد المحتار: 5/ 273)

6۔  اس دوران اگر میاں بیوی کی طرح رہے ہوں تو گنہگار ہوئے ورنہ اس کا کچھ حکم نہیں۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved