• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدالتی خلع کی شرعی حیثیت

استفتاء

محترم المقام !

ہم لوگ دوبئی میں کام کاج کے سلسلے میں رہتے ہیں۔ ہم نے اپنے چچا کے بھروسے پر***کے ایک آدمی سے اپنی ہمشیرہ کا رشتہ کر دیا۔ ہمشیرہ کچھ عرصہ یہاں رہی، اس کے بعد اقامہ کی تجدید/انٹری کے لئے دوبئی آگئی۔ اس کا شوہر اور ساس اسے چھوڑنے کے لئے ایئر پورٹ تک آئے۔ اس کے بعد والد صاحب نے اس کے شوہر کو دوبئی اس غرض سے بلالیا کہ اس کے کام کاج کی یہاں کوئی ترتیب بن جائے۔ کام کی ترتیب بن گئی مگر ان /آؤٹ کیلئے پاکستان آیا اور پھر واپس نہیں گیا۔ اس کے بعد ہمشیرہ نے اس سے رابطہ کیا تو اس نے کہا تم یہیں رہو میں سوچتا ہوں۔اس سوچنے سوچنے میں کچھ عرصہ گزر گیا۔اس دوران آپس میں حالات کشیدہ ہونا شروع ہوگئے اور لڑکے نے والد صاحب سے بدتمیزی بھی کی اور کہا کہ اپنی بیٹی کو اپنے پاس رکھو، میں دیکھتا ہوں۔

لڑکی کے والدین لڑکے کے گھر بھی گئے مگر لڑکے کی والدہ نے ذمہ داری اٹھانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’میں نے تو لڑکی آپ سے نہیں مانگی، میرا کوئی کام نہیں اس معاملے میں، میں نے اپنے بیٹے کو گھر سے نکال دیا ہے۔‘‘

اس دوران میں بھی لڑکے کے پاس گیا اور اسے ہر طرح سے قائل کرنے کی کوشش کی مگر وہ کسی بات پر نہیں آیا یہاں تک کہ میں نے اسے ٹکٹ کی بھی آفر کی۔ پھر دوبارہ دو تین دفعہ میں نے اس سے ملنے کی کوشش کی مگر وہ ملا ہی نہیں، نہ فون پر رابطہ ہوسکا۔

خلاصہ یہ ہے کہ لڑکے نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ لڑکی کو پاکستان بھیج دو،   میں بساتا ہوں۔ اور نہ کسی اور طرح سے اس نے آمادگی کا اظہار کیا بلکہ ہمیشہ لٹکائے رکھنے والا معاملہ کیا۔

جب اس طرح کے حالات ہوئے اور فون پر والد صاحب سے گالم گلوچ بھی ہوئی تو ہم ہمشیرہ کا ساز و سامان گھر سے لے آئے۔ اس دوران ان لوگوں نے باوجود لسٹ میں لکھا ہونے کے اس کا تین تولہ زیور ہمیں واپس نہیں کیا جب کہ لسٹ میں لکھا کہ ہم نے واپس کر دیا ہے۔ اس کے محلہ والوں سے جب اس سلسلے میں رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ یہ آدمی بہت لالچی ہے اس نے پہلے شادی کی اور لڑکی والوں سے کچھ مطالبے کیے، پورے نہ ہو نے پر وہ چھوڑ دی، پھر دوسری کی اور وہ بھی چھوڑدی ، اب تیسری ہے۔ آپ لوگ جس طرح بھی ہوسکے ان سے جان چھڑوائیں۔

لڑکے نے ہمشیرہ سے جائیداد نام کروانے کا مطالبہ بھی کیا تھا اس کا یہ لالچ ہمیں بہت برا لگا۔

لڑکے سے طلاق کا مطالبہ کیا گیا مگر اس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ نہ طلاق دینی ہے اور نہ خلع۔ اس کے بعد ہم نے مجبوراً مورخہ 2016- 3- 18 کو  عدالت میں خلع کیلئے دعویٰ کیا جس کے کاغذات ساتھ لف ہیں۔ عدالت میں تیسری پیشی پر لڑکا آیا اور آکر جج سے کہا کہ میں نہ خلع دینا چاہتا ہوں نہ طلاق، میں دیکھوں گا۔ اسی دن پیشی پر میرے ساتھ اس کا سامنا ہوا تو میں نے اسے کہا کہ کیا مسئلہ بنا رکھا ہے، طلاق دے کر معاملہ ختم کرو۔ تو اس نے غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لیتے ہوئے اپنے وکیل سے کہا کہ اس نے مجھے دھمکی دی ہے۔

دوران کیس جج نے لڑکی کے حاضر کرنے کو کہا چنانچہ ہمشیرہ د وبئی سے آئی اور عدالت میں پیش ہوئی اور جج کے سامنے بیان دیا کہ میں اس شخص کے غلط روئیے کی وجہ سے اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔چنانچہ ہمیں مورخہ 2016- 6- 15 کو  عدالت سے خلع کی ڈگری جاری ہوگئی۔ جو ساتھ لف ہے۔

جب ڈگری جاری ہوئی تو پھر کہنے لگا میں والد صاحب (سسر) سے معافی مانگنے اور سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ عدالت میں جھوٹ والی بات اور پچھلے تجربات کی وجہ سے ہمیں اس کے دعوے یا باتوں پر قطعاً اعتماد نہیں۔ اگر ہم لڑکی زور زبردستی بھیج بھی دیں تو اس سے کسی بھی غلط بات کی توقع بعید نہیں۔ اس سے قبل جس لڑکی کو اس نے چھوڑا تھا اس پریہ تہمت لگائی تھی کہ اس کا کسی کے ساتھ لنک تھا۔

اب نو ماہ سے لڑکی اپنے والدین کے گھر بیٹھی ہے، نہ شوہر رابطہ کرتا ہے نہ نان نفقہ دیتا ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگ انتہائی پریشان ہیں۔ اگر لڑکا طلاق دیدے تو اگلا بندوبست سوچیں، ظاہر ہے کہ ساری عمر تو وہ شوہر کا انتظار نہیں کر سکتی۔ ہمیں یہ بھی معلومات ملی ہیں کہ لڑکے نے آگے اور شادی بھی کر لی ہے۔

نوٹ: ہمیں ہمشیرہ کے حوالے سے مالی پریشانی کوئی نہیں اللہ کا دیا ہوا بہت ہے۔ مگر اس طرح معاملے کا لٹکے رہنا ناقابلِ برداشت ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عدالت نے نکاح کو ختم کرنے کے لیے اگرچہ خلع کا طریقہ اختیار کیا ہے اور یکطرفہ خلع باتفاق فقہاء معتبر

نہیں، تاہم چونکہ فسخ نکاح کی ایک معتبر بنیاد یعنی شوہر کا تعنت ((1)استطاعت کے باوجود نان نفقہ نہ دینا اور (2) حقوق زوجیت ادا نہ کرنا) پایا جارہا ہے۔ اس لیے نکاح کو ختم سمجھا جائے گا۔ عورت عدت گذارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ عدت کی ابتداء فیصلے کی تاریخ سے ہو گی۔

توجیہ:

تعنت کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مسئلہ فقہ مالکی سے ماخوذ ہے۔ مالکیہ کے ہاں تعنت کی بنیاد پر حق فسخ حاصل ہونے کے لیے محض اتنا کافی ہے کہ (1) خاوند نان نفقہ نہ دے چاہے متبادل نظم ہو یا نہ ہو۔ (2) یا عورت کے تقاضے پر بلا عذر حق زوجیت ادا نہ کرے (اور اس پر ایک معتدبہ زمانہ گذر جائے)۔ چاہے عورت کو معصیت میں ابتلاء کا اندیشہ ہو یا نہ ہو۔ گویا مالکیہ کے ہاں تعنت کی بنیاد پر علیٰ الاطلاق حق فسخ حاصل ہے۔

(1) نفقہ کے بارے میں مواہب الجلیل (9/ 141) میں ہے:

من لم يثبت عسره وامتنع من الإنفاق والطلاق فتارة يقر بالملا أي ]الغنا[ وتارة يدعي العسر فإن ادعى العسر تلوم له، وإن أقر بالملاء فحكى ابن عرفة في ذلك قولين. أحدهما انه يعجل عليه الطلاق، والثاني أنه يسجن حتى ينفق.

حیلہ ناجزہ میں مالکیہ کے فتاویٰ میں ہے: (133)

إن منعها نفقة الحال فلها القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم.

(2) حق زوجیت کے بارے میں شرح مختصر خلیل خرشی میں ہے:

أو ترك وطأها ضرراً  أو أدام العبادة أنه يطلق عليه بلا ضرب أجل الإيلاء وسواء كان تارك الوطء ضرراً حاضراً أو غائباً … فإن علم لدده وإضراره طلق عليه فوراً وإلا أمهله باجتهاده فلعله يترك ما هو عليه … و من شرب دواءً لقطع لذة النساء كان لها الفراق وكذلك إن شرب لعلاج علة وهو عالم أنه يذهب ذلك أو شاك.

اور التاج الأكليل لمختصر خليل میں ہے:

من المدونة قال مالك من ترك وطء زوجته لغير عذر ولا إيلاء لم يترك إما وطئ أو طلق، يريد ويتلوم له بمقدار أجل الإيلاء أو أكثر، قال مالك وقد كتب عمر بن عبد العزيز إلى قوم غابوا بخراسان وخلفوا أهليهم فكتب إلى أمراءهم إما أن يقدموا أو يرحلوا نسائهم أو يطلقوا. قال مالك: وذلك رأي وأرى أن يقضى بذلك. (147)

المعونہ میں ہے:

ومن ترك الوطء مضاراً و عرف ذلك منه وطالت المدة به كان حكمه حكم المولي وقيل: يفرق بينهما من غير ضرب أجل. (883)

ومن ترك الوطء مضاراً و عرف ذلك منه وطالت المدة به كان حكمه حكم المولي. لأن الإضرار بها موجود لا طريق إلى إزالته إلا بضرب الأجل فكان كالحالف ووجه القول أنه الا يضرب له أجل ويطلق عليه لأن الأجل للحالف وهذا غير الحالف. (2/ 887)

اورمولی کا حکم یہ ہے:

فإما فاء وإما طلق، فإن فاء فهي امرأته، وإن أبى فاختارت فراقه أمر بالفراق، فإن طلق وإلا طلق عليه وله الرجعة، فإن فاء في العدة ويعتبر صحتها (الرجعة: ناقل) بالوطء فإن وطئ فيها وإلا لم تصح وبانت منه بانقضاء العدة إلا أن يكون له عذر في امتناعه.

متعنت كے بارے میں مالکیہ کے اصل مذہب میں اطلاق کی حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے  بھی وضاحت کی ہے۔ چنانچہ حیلہ ناجزہ میں ہے:

متعنت اصطلاح میں اس شخص کو کہتے ہیں جو باوجود قدرت کے بیوی کے حقوق نان نفقہ وغیرہ ادا نہ کرے۔ اس کا حکم بھی مالکیہ کے مذہب سے لیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔

زوجہ متعنت کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کر لے لیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک زوجۂ متعنت کو تفریق کا حق مل سکتا ہے۔(١) اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں:

(١) ایک یہ کہ عوت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو۔

(٢) اور دوسری مجبوری کی صورت یہ ہے کہ اگرچہ بسہولت یا بدقت خرچ کا انتظام ہو سکتا ہے لیکن شوہر سے علیحدہ رہنے میں ابتلاء معصیت کا قوی اندیشہ ہو۔  (حیلہ ناجزہ: 73)

اس عبارت پر خود حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا منہیہ یہ ہے:

وهذا الحکم عند المالکیة لا یختص بخشیة الزنا وإفلاس الزوجة لکن لم نأخذ مذهبهم علیٰ الإطلاق بل اخذناه حیث وجدت الضرورة المسوغة للخروج عن المذهب ١٢ منه.

حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے اس منہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مالکیہ کے مذہب میں تعنت کے تحقق کے لیے (1) نفقے کے متبادل نظم (2) اور اندیشہ معصیت کی قید نہیں تھی۔ لیکن حضرت نے از راہ احتیاط ان دو قیود کا اضافہ فرمایا ہے۔ تاکہ خروج عن المذہب کم سے کم مقدار میں ہو۔

ہم نے مذکورہ بالا جواب میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی ان دونوں قیود سے عدول کیا ہے اور مالکیہ کے اصل مذہب کو سامنے  رکھا ہے۔ کیونکہ یہاں نفقے کا متبادل نظم بھی ہے اور عورت کی طرف سے ابتلائے معصیت کے اندیشے کا اظہار بھی نہیں ہے۔

ان قیود  سے عدول کرنے کی وجوہات یہ ہیں:

1۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے منہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مالکیہ کا اطلاق پر مشتمل اصل مذہب لینے کی بھی گنجائش تھی مگر

حضرت نے اپنے زمانے و حالات کو سامنے رکھتے ہوئے از راہ احتیاط اسے مقید کیا ہے۔

2۔ متبادل نظم ہوتے ہوئے اور زنا کا اندیشہ  نہ ہونے کے باوجود مختلف معاشرتی وجوہات کی بناء پر لوگوں کے لیے بالعموم ایسی معلقہ خاتون کو گھر میں بٹھائے رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے لوگ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور نکاح ختم کرواتے ہیں۔

3۔عدالتیں بھی فسخ کے فیصلے کرتے ہوئے ان قیود و حدودکو پیش نظر نہیں رکھتی بہت سے لوگ ان فیصلوں کی بنیاد پر آگے نکاح بھی کر دیتے ہیں۔ کسی معاملے میں عدالت نے اگر فیصلہ کردیا ہو اور مالکیہ کے اصل مذہب کے مطابق بنیاد فراہم ہو  رہی تو حکم الحاکم رافع الخلاف کے قبیل سے اسے ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ اغلب یہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے سامنے بھی یہ حالات ہوتے تو وہ بھی اطلاق کو اختیار فرماتے۔

4۔ فقہ اسلامی انڈیا کے مرتب کردہ ’’عائلی قوانین‘‘ میں وجوہات فسخ میں ’’ترک وطی‘‘ کے تحت بھی اندیشہ زنا کو شرط نہیں ٹھہرایا گیا۔ چنانچہ عبارت ہے:

’’ترک مجامعت اور بیوی کو معلقہ بنا کر رکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ کیونکہ حقوق زوجیت کی ادائیگی واجب ہے۔ حقوق زوجیت ادا نہ کرنا اور بیوی کو معلقہ بنا کر رکھنا ظلم ہے اور رفع ظلم قاضی کا فرض ہے۔ نیز مذکورہ صورت میں عورت کا معصیت مین مبتلا ہونا بھی ممکن ہے۔

قاضی کا فرض ہے کہ ایسے امکانات کو بند کرائے، اس لیے اگر عورت قاضی کے یہاں مذکورہ بالا شکایت کے ساتھ مرافعہ کرے تو قاضی تحقیق حال کے بعد لازمی طور پر رفع ظلم کرے گا اور معصیت سے محفوظ رکھنے کے مواقع پیدا کرے گا۔ مذہب مالکیہ میں بھی ترک مجامعت وجہ تفریق ہے۔‘‘ (عائلی قوانین: 193)

نوٹ:

فسخ نکاح کے بعد اگر متعنت اپنے تعنت سے باز آجائے تو ایک رائے کے مطابق اسے رجوع (بلا تجدید نکاح) کا اختیار ہوتا ہے جسے حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے حیلہ ناجزہ میں احتیاطاً راجح قرار دیا ہے۔ اور دوسری رائے میں رجوع کا اختیار نہیں ہوتا۔ جس کا لحاظ کرتے ہوئے احتیاطاً تجدید نکاح کی تجویز بھی دی ہے۔ (دیکھئے حیلہ ناجزہ: 74، 127، 129)

ہماری زیر نظر صورت میں خاوند نے فیصلہ ہو جانے کے بعد حقوق کی ادائیگی پر غیر مشروط آمادگی ظاہر کی ہے۔ مگر چونکہ یہ محض ارادے کا اظہار ہے، رجوع نہیں۔ اس لیے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور فسخ نکاح کا فیصلہ بدستور مؤثر رہے گا۔  فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved