• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اوبر، کریم جیسی گاڑیاں فراہم کرنے والی کمپنی سے متعلق

استفتاء

محترم جناب مفتی صاحب! کچھ کمپنیاں موبائل ایپلی کیشن کے ذریعہ ٹیکسی کی سہولت عوام کو فراہم کرتی ہیں جس کی تفصیل یوں ہے کہ کمپنی اپنی ذاتی گاڑی بطور ٹیکسی استعمال نہیں کرتی بلکہ گاڑیاں عام لوگوں کی ہوتی ہیں جو کمپنی سے رجسٹرڈ ہو کر پھر کمپنی کی ایپلی کیشن کے توسط سے مسافروں کو آرام دہ اور کم خرچ سفر کی سہولت مہیا کرتی ہیں. اس میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ کمپنی اور گاڑی مالکان کے درمیان ہونے والے عقد کا شرعی حکم کیا ہے۔

اس عقد کی ضروری تفصیلات درج ذیل ہیں۔

١- کمپنی کے ذمہ کئی امور ہوتے ہیں مَثَلاً :

* بذریعہ ایپلی کیشن مسافروں کا رجسٹرڈ گاڑیوں سے رابطہ پیدا کرنا ۔

* گاڑیوں کی مانیٹرنگ ۔

* مسلسل نگرانی کے ذریعہ سفر کو محفوظ بنانا ۔

* جی پی ایس سروس کی سہولت فراہم کرنا

* گاڑی مالکان کو سہولت فراہم کرنا کہ وہ اپنے موبائل کے ذریعہ ڈرائیور اور گاڑی کو مانیٹر کر سکیں وغیرہ وغیرہ۔

٢- گاڑیوں کے مالکان کے ذمہ مسافروں  کو آرام دہ سفر کی سہولت مہیا کرنا ہے یہ مالکان کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ گاڑی خود چلائیں یا  ڈرائیور کے حوالے کریں اور خود اسے اجرت دیں. کمپنی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ بھی مالکان کی ذاتی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ یومیہ کتنے گھنٹے کام کریں گے البتہ جس قدر آمدن بھی انہیں حاصل ہو گی اس میں سے کمپنی اپنا فیصدی حصہ وصول کر کے باقی رقم مالکان کے حوالے کر دے گی خواہ وہ تھوڑے وقت کی تھوڑی آمدن ہو یا اس کے برعکس ہو لیکن گارنٹیڈ پیمنٹ (یقینی ادائیگی) حاصل کرنے کے لئے کم از کم مدت متعین ہوتی ہے جس کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔

٣- سفر کے کرایہ سے متعلق تفصیلات :

        * کرایہ کمپنی خود طے کرتی ہے جس میں گاڑی مالکان کی رائے کا کوئی دخل نہیں ہوتا البتہ کرایہ میں کسی قسم کے ردوبدل سے ان کو باخبر رکھا جاتا ہے ۔

         * کرایہ کے بنیادی طور پر تین حصے ہوتے ہیں :

i- بنیادی کرایہ (fare base)  مَثَلاً ١٠٠ روپے۔

ii- فی کلو میٹر کرایہ مَثَلاً ١٠ روپے ۔

iii- فی منٹ کرایہ مَثَلاً  3 روپے ۔

واضح رہے کہ فی منٹ کرایہ بعض کمپنیوں کے ہاں تب چارج کیا جاتا ہے جب گاڑی کی رفتار مقررہ حد مَثَلاً ١٥ کلو میٹر فی گھنٹہ سے کم ہو جبکہ دیگر کمپنیاں رفتار کی کوئی تحدید نہیں کرتیں بلکہ سفر میں کل صرف شدہ وقت  پر فی منٹ چارج کر لیتی ہیں۔

* کمپنیاں نئے مسافروں کو پہلی رائڈ مفت دیتی ہیں لیکن گاڑی مالکان کو اس رائڈ کی ادائیگی کمپنی کی جانب سے اس کے حصہ کے مطابق کر دی جاتی ہے ۔

* گاڑی طلب کرنے کے لئے ریکویسٹ بھیجنے کے بعد  ابتدائی دو یا تین منٹ کے اندر مسافر اگر  وہ ریکویسٹ  منسوخ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اس کے بعد منسوخی کی صورت میں کمپنی تقریباً سو روپے یا کم و بیش جرمانہ وصول کرتی ہے جس کی وصولی اس مسافر کی اگلی رائڈ  کے کرایہ میں شامل کر کے کی جاتی ہے ۔

٤- عاقدین کے مابین آمدن کی تقسیم:

* اس کی بنیادی طور پر دو شقیں ہیں

i۔  گارنٹیڈ پیمنٹ

اس میں کمپنی گاڑی کے مالک کو ایک طے شدہ رقم دینے کی پابند ہوتی ہے لیکن مندرجہ ذیل چند شرائط کے ساتھ :

(١) اگر گاڑی کے ڈرائیور کی کمپنی کے توسط سے مسافروں کی وصول ہونے والی ریکویسٹ کو قبول کرنے کی شرح ٩٠ فیصد ہو جائے اور

(ب) وہ یومیہ کم از کم گیارہ گھنٹے ڈیوٹی پر موجود رہے اور

(ج) یومیہ کم از کم دس مسافروں کو سفر کی سہولت بہم پہنچائے تو کمپنی اسے گارنٹیڈ رقم مَثَلاً ٣٥٠٠ /- روپے دینے کی پابند ہو گی۔

اگر ڈرائیور کی اس روز کی کمائی ٣٥٠٠ /- سے کم ہو تو کمپنی اپنے پاس سے ٣٥٠٠/- پورے کر کے ادا کرے گی اور اگر ڈرائیور کی کمائی گارنٹیڈ رقم (٣٥٠٠/-) سے زیادہ ہو تو زائد رقم کمپنی کی ہو گی خواہ وہ کتنی ہی ہو۔

ایک دوسری کمپنی کا ضابطہ اس سے قدرے مختلف ہے ، وہ ہفتہ وار نفع کی تقسیم یوں کرتی ہے کہ گاڑی مالکان کو ہفتہ بھر میں جو آمدن ہوئی ہے خواہ وہ گارنٹیڈ پیمنٹ کی شرائط پوری کرتے ہوئے حاصل ہوئی ہو یا اس کے بغیر، کمپنی اس کی آمدن کا پچیس فیصد خود رکھ لیتی ہے اور باقی گاڑی کے مالک کے حوالے کر دیتی ہے البتہ گارنٹیڈ پیمنٹ کی شرائط پوری کر دینے کے باوجود اگر آمدن گارنٹیڈ پیمنٹ سے کم ہو تو کمپنی پھر بھی گارنٹیڈ رقم دینے کی پابند ہو گی لیکن ہفتہ بھر کے حساب میں کمپنی اپنے پچیس فیصد اس میں سے بھی وصول کرے گی ۔

ii۔ فیصدی تقسیم: اگر گارنٹیڈ پیمنٹ کی شرائط پوری نہ ہوں تو کمپنی حاصل شدہ آمدن میں سے اپنا فیصدی حصہ وصول کر کے بقیہ رقم گاڑی کے مالک کو دے دیتی ہے ۔

(5)مالک کے لئے بونس۔

i۔ ہفتہ وار بونس: جمعہ اور ہفتہ کو دس رائیڈز پر ایک ہزار روپے یومیہ بونس دیا جاتا ہے ۔

ii۔  چودہ روزہ بونس: اگر دو ہفتہ میں ایک سو پچھتر رائیڈز کر لیں تو دس ہزار بونس ملے گا ….. اگر ایک سو پچاس رائیڈز کریں تو ساڑھے سات ہزار بونس ….. اگر ایک سو پچیس رائیڈز کریں تو پانچ ہزار بونس ملے گا …… اور اگر سو رائیڈز کر لیں تو ٢٥٠٠/- بونس ملے گا ۔

(6)ڈرائیور کے لئے بونس: اس کے علاوہ کمپنی ڈرائیور کو علیحدہ سے  بونس دیتی ہے جس کے لین دین سے گاڑی کے مالک کا کوئی تعلق نہیں ہوتا گویا کمپنی ڈرائیور کی کارکردگی  پر اسے انعام دیتی ہے۔ یہ بونس دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کارکردگی بونس اور حوالہ جاتی بونس۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

منسلکہ معلومات کے مطابق ابتدائی مرحلے میں کمپنی سفری خدمات فراہم کرنے والی ہے۔ اور سواری براہ راست کمپنی سے خدمات حاصل کرنے والی ہے چنانچہ سواری مستاجر ہے اور کمپنی اجیر۔ اور سفر کی اجرت فاصلے کی مقدار کے ساتھ خاص تناسب سے منسلک ہے اور ایسا کرنا  جائز ہے۔

کمپنی سواری سے اجارہ کا معاملہ کرنے کے بعد اپنے پاس رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے کسی گاڑی کے ساتھ اجارے کا معاملہ کرتی ہے کہ اس سواری کو اس کی مطلوبہ جگہ پہنچا دو، اس مرحلے میں کمپنی مستاجر بن جاتی ہے اور ڈرائیور اجیر۔ اور ڈرائیور کی اجرت یعنی سواری کے ساتھ طے ہونے والی کلی تناسبی اجرت کا 75 فیصد ہوتی ہے۔  ڈرائیور کو اگرچہ اجارے کے معاملے میں داخل ہونے سے قبل معلوم نہیں ہوتا کہ سواری نے کہاں جانا ہے تاہم چونکہ اجرت فاصلے کے ساتھ منسلک ہے اس لیے یہ عدمِ واقفیت عقد پر اثر انداز نہ ہو گی۔

اس کے علاوہ کمپنی ڈرائیور کو گارنٹڈ پیمنٹ اور بونس کے عنوان سے جو کچھ دیتی ہے وہ اضافہ فی الاجرت ہوتا ہے، جو مخصوص شرائط پر موقوف ہوتا ہے یعنی اگر فلاں فلاں حد کو پہنچ گئے تو اتنا کچھ ملے گا وغیرہ۔ اس میں اگرچہ یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح تو ڈرائیور کی اجرت حتمی نہ ہوئی مگر اس کا جواب یہ ہے کہ اجارے میں تردید فی الاجرت جائز ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved