- فتوی نمبر: 8-134
- تاریخ: 20 دسمبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > سود
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مذکورہ مسئلہ کے بارے میں:
1۔ *** نے *** سے ایک لاکھ روپے بطور قرض لے لیا۔ اور دو کنال زرعی زمین بطور رہن دے دی۔ *** نے کہا کہ جب تک میں ایک لاکھ روپے واپس نہ کر دوں اس وقت تک میری زمین سے آپ نفع اٹھائیں اور میں آپ کے پیسوں سے نفع اٹھاؤں گا۔ کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟
2۔ *** نے کہا کہ سال کے اعتبار سے 10 ہزار روپے دو کنال زمین کے کرایہ کے طور پر ایک لاکھ میں سے کاٹ لوں گا۔ جب آپ قرضہ واپس کر دوں تو گذرے ہوئے سالوں کا قرضہ کاٹ کر بقایا آپ کو دے دوں گا، اور زمین میرے لیے فارغ ہو گی۔ اگرچہ زمین کی پیداوار سال میں 10 ہزار روپے سے زیادہ ہو۔ کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟
3۔ *** نے جب زمین *** کے حوالے کر دی، اور ایک لاکھ روپے لے لیا۔ تو کسی قسم کی کوئی شرط نہیں لگائی لیکن *** سود سے
بچنے کے لیے جب بھی زمین سے فصل لیتا ہے تو فصل میں سے غیر متعین حصہ *** کو دے دیتا ہے۔ کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟
اگر مذکورہ صورتیں مکمل ناجائز ہیں تو جائز صورت کیسے ہو گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
صورت نمبر1 اور صورت نمبر3 جائز نہیں۔ کیونکہ ان صورتوں میں ***، *** کو قرض دینے کی وجہ سے *** کی زمین سے فائدہ اٹھاتا ہے، اور یہ فائدہ اٹھانا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ لہذا یہ صورتیں سود کی بنتی ہیں، اور جائز نہیں۔
صورت نمبر 2 کے بارے میں مندرجہ ذیل وضاحت مطلوب ہے کہ اس (دو کنال) زرعی زمین کا مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے سالانہ کرایہ پیسوں میں کتنا بنتا ہے؟
جائز صورت یہ ہے کہ یا تو رہن رکھی ہوئی زمین سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اور اگر اس رہن رکھی ہوئی زمین سے فائدہ اٹھانا ہی ہے تو پھر دو کام کیے جائیں۔ ایک تو زمین کا مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے کرایہ ادا کیا جائے۔ اور دوسرے اس زمین کو کرایہ پر لینے کے معاملے کو قرض کے ساتھ مشروط نہ کیا جائے۔ یعنی *** کو اس بات کا پابند نہ کیا جائے کہ وہ اس قرض لینے پر *** کو اپنی دو کنال زمین کرایہ پر دے گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved