• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دکان یا مکان گروی پر لینا

  • فتوی نمبر: 8-291
  • تاریخ: 19 مارچ 2016

استفتاء

دکان یا مکان گروی لینا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

گروی پر دکان یا مکان لینے کا جو مروجہ طریقہ ہے وہ جائز نہیں۔ کیونکہ مروجہ طریقے میں گروی پر مکان یا دکان لینے والے شخص کی طرف سے  جو رقم دی جاتی ہے اس کی حیثیت قرضے کی ہے اور قرض دینے والا شخص مقروض کے مکان یا دکان کو یا تو بغیر کسی کرایہ کے استعمال کرتا ہے اور یا مارکیٹ ویلیو سے کم کرایہ دے کر استعمال کرتا ہے۔ اور یہ دونوں صورتیں سود کی بنتی ہیں۔

نبی  پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

كل قرض جر نفعاً فهو وجه من وجوه الربا. (البيهقي: 5/ 450)

و في رد المحتار (10/ 82):

لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه و إن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً فيكون ربا، و هذا أمر عظيم.

و في الشامية (10/ 87):

قال ط: قلت و الغالب من أحوال الناس أنهم إنما يريدون عند الدفع الانتفاع، و لو لاه لما أعطاه الدراهم و هذا بمنزلة الشرط، لأن المعروف كالمشروط و هو مما يعين المنع، و الله تعالى أعلم

فائدة: قال في التاترخانية ما نصه: و لو استقرض دراهم و سلم حماره إلى المقرض ليستعمله إلى شهرين حتى يوفيه دينه أو داره يسكنها فهو بمنزلة الإجارة الفاسدة إن استعمله فعليه أجر مثله و لا يكون رهناً.

تبویب (اجارہ کا بیان: 239) میں ہے:

’’گروی والے مکان سے نفع اٹھانا نا جائز اور حرام ہے۔ اگرچہ مالک مکان اس کی اجازت بھی دیدے۔ کیونکہ یہ قرض کے مقابلہ میں نفع اٹھانا ہے جو سود بنتا ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved