• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تم میری طرف سے فارغ ہو۔ عدت کے بعد مزید صریح طلاق دینا

استفتاء

شوہر کا بیان حلفی

میں اپنے ہوش و حواس میں جو بات کروں گا سچ کروں گا۔ دو سال پہلے ہمارا پردہ نہ کرنے پر جھگڑا ہوا اور نماز لیٹ پڑھنے پر جھگڑا ہوا۔ اس میں ہماری تو تو میں میں ہو گئی، ہماری رنجش ہو گئی، اسی دوران میری بیوی نے کہا کہ مجھے طلاق دے دیں، میں نے کہا کہ میں آپ کو طلاق نہیں دینا چاہتا اور کوئی بات کرو، میں نے کہا شکل گم کرو، بکواس نہ کرو، دفعہ ہو جاؤ، میرے کاغذوں میں تم فارغ ہو۔ میری طلاق دینے کی نیت نہ تھی۔ اس کے علاوہ میں نے کوئی طلاق نہیں دی ہے۔

یہ مسئلہ ایک مفتی صاحب کے سامنے گیا تو انہوں نے ہمارا نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کروا دیا، ان کے والد صاحب نے کروایا۔ میرے سسر نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میری بیٹی کو طلاق دے دو، اور طلاق دینے پر بار بار مجبور کیا  اور کہا کہ اگر میں آپ کو کہوں کہ آپ میری بیٹی کو طلاق دو تو آپ دے دیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ یہ نہ کریں میری بیوی سے بات کروائیں۔ میرے سسر نے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ آپ میری بیٹی کو طلاق دے دیں تو آپ طلاق دے دیں گے۔ تو میں نے کہا کہ ہاں میں ایک طلاق دے دوں گا۔ اس کے بعد میں نے فون بند کر دیا۔ میں نے یہ بھی کہا کہ ہاں میں آپ کو (سسر) کو ایک طلاق دے دوں گا۔

میں حلفاً کہتا ہوں  کہ میں نے کبھی بھی بیوی کے سامنے طلاق کا لفظ نہیں بولا۔ میں نے زیادہ سے زیادہ یہ کہا ہے کہ ’’تم میرے کاغذوں میں فارغ ہو‘‘ باقی رہا ’’ساریاں‘‘ والا قصہ یہ سفید جھوٹ ہے، اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا دو سال قبل کا جو بیوی نے

لکھا ہے وہ فون پر میں نے اپنے سسر کو کہا تھا کہ ’’آپ زیادہ اصرار کرتے ہیں تو میں آپ کو طلاق دیتا ہوں‘‘،بیوی کو ہرگز نہیں کہا۔

بیوی کا بیان

ایک طلاق واضح دی 2014ء میں فون پر تب میں حاملہ تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ اس کے بعد یہ ابو سے باتیں کرنے لگ گئے۔ پھر  دو سال پہلے ہماری لڑائی ہوئی۔ *** نے کہا ’’جاؤ اٹھو نکلو میں نے تجھے طلاق دی‘‘ یا ’’دینی ہے‘‘ یہ صحیح یاد نہیں۔ پھر میں نے اس کی امی جو پاس تھی ان سے پوچھا: *** سے پوچھیں انہوں نے مجھے کتنی دی ہیں؟ اس کے دوران *** نے کہا ’’ساریاں‘‘۔ پھر اس کی امی کہتی ہے ایسے تھوڑی طلاق ہوتی ہے، مجھے زیادہ یہی لگتا ہے کہ بات ایسے ہی ہوئی تھی، اس بات کو دو سال ہو گئے ہیں۔

ان دو سالوں میں میں نے *** سے کئی دفعہ پوچھا تو وہ ہر دفعہ انکار ہی کرتے تھے کہ بات ایسے نہیں ہوئی۔ یہ مسئلہ میں نے بزرگ سے پوچھا تو وہ کہتے ہیں: جب  *** ہی نہیں مانتا تو ساری بات اس پر ہی ہے، تم گنہگار نہیں ہو۔ پھر ایک دن میں نے اچانک یہ مسئلہ مفتی صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ طلاق ہو گئی ہے۔ پھر مجھے ڈاؤٹ آنا شروع ہو گیا، میں گہرا سوچنے لگی اور پریشان بھی بہت زیادہ رہنے لگی کہ کہیں کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ ڈاؤٹ اس طرح کا تھا کہ کبھی پکا لگتا کہ یہ بات ایسے ہی ہوئی ہے اور کبھی کبھی لگتا کہ شاید ایسے نہ ہوئی ہو۔

پھر مفتی صاحب سے پوچھا تو وہ کہتے ہیں کہ ڈاؤٹ ہے اور *** بھی انکار کرتا ہے تو نکاح کر کے گھر چلی جاؤ۔ میں گھر چلی گئی تو مجھے پھر وہی سوچ رہتی کہ *** نے  ایسے ہی کہا تھا، وہی ڈاؤٹ مجھ جینے نہ دیتا تھا، میں پانچ دن بہت پریشان رہی اور مطمئن ہی نہ ہو پائی کہ پتہ نہیں میرا رشتہ ہے کہ نہیں، شوہر کے پاس جانے سے ڈر لگتا تھا۔ پھر میں میکے آگئی۔

میں نے دو دن بعد *** کو فون کیا تو بار بار پوچھتی رہی کہ آپ کو کچھ یاد آیا ہے، آپ کے ذہن میں کوئی بات آتی ہے، تو *** کہتے ہیں جب تم اتنا اصرار کر رہی ہو تو شاید میں نے کہا ہو، میں قرآن اٹھا کر ایسے ہی گنہگار ہوں۔ میں نے کہا: میرے کہنے سے نہیں مجھے صحیح بتائیں آپ کو یاد آگیا ہے؟ *** کہتے ہیں ہاں مجھے یاد آگیا: میں نے کہا ہے، میں تنگ آگیا ہوں آپ لوگوں سے۔

پھر مفتی صاحب سے پوچھا تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے پہلے ڈاؤٹ تھا، مگر ایسے کہنے سے رشتہ ختم ہو گیا ہے۔ پَر *** کہتے ہیں میں نے بیوی کے کہنے سے ایسے کہا ہے، وہ ہر بات سے انکار کرتے ہیں۔

ان کو مسائل کا بالکل بھی پتہ نہیں ہے وہ الفاظ بھی بدل لیتے ہیں، اور بات بھی۔ مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ وہ غلط بیانی کرتے ہیں، میرا دل ان کی باتوں پر مطمئن نہیں ہوتا، مجھے بہت ڈر لگتا ہے ان کی غلط بیانی سے۔

لڑکی ان ساری باتوں پر حلف اٹھانے کو تیار ہے۔

نوٹ: ہمارا مذکورہ نکاح ایک ماہ قبل ہوا ہے۔ اس سے پہلے ہمارا نکاح نہیں ہوا۔

تنقیح: خاوند کے بیان میں جو کہا ہے ’’تم میرے کاغذوں میں فارغ ہو‘‘ کیا یہ بات آپ کو تسلیم ہے؟ اور یہ بات کس موقع پر کہی تھی؟

جواب: اس قسم کے الفاظ تو اکثر لڑائی اور ناراضگی کے دوران کہہ دیتے تھے، بارہا کہا ’’تم  میری طرف سے فارغ ہو، میں نے تمہیں نہیں رکھنا‘‘۔

فون پر واضح طلاق دینے سے پہلے بھی یہ لفظ کہے تھے اور بعد میں بھی کہے۔

’’ساریاں‘‘ والے واقعے سے بہت پہلے بھی یہ لفظ کہے تھے اور کہتے رہتے تھے۔

مزید وضاحت مطلوب ہے:

کہ شوہر نے ’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ کے الفاظ فون پر دی گئی طلاق سے کتنا عرصہ پہلے کہے تھے؟

جواب وضاحت:

تقریباً ڈیڑھ سال پہلے۔

نوٹ: مفتی صاحب نے جو ہمارا نکاح کروایا تھا وہ اب سے ایک ماہ قبل کروایا تھا، اس سے پہلے ہمارا تجدیدِ نکاح نہیں ہوا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق جب پہلی دفعہ شوہر نے لڑائی اور ناراضگی کے دوران یہ کہا کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ تو اس کہنے سے ایک طلاق بائنہ ہو گئی جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا اس کے بعد اس طرح یعنی کنائی الفاظ کہنے سے کوئی طلاق نہیں ہوئی لأن البائن لا يلحق بالبائن.

صاف الفاظ میں دی گئی طلاق کا واقعہ یا اس کے بعد دی گئی طلاق کا واقعہ چونکہ عدت گذرنے کے بعد کا ہے اس لیے بعد والے واقعات سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔

غرض عورت کے بیان کے مطابق مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائنہ واقع ہوئی جس کی وجہ سے نکاح ختم ہوا لیکن چونکہ بعد میں تجدید نکاح کر لیا اس لیے میاں بیوی والے تعلقات قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved