• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشغول چیز کا ہبہ

استفتاء

ایک شخس نے اپنی والدہ سے مطالبہ کیا کہ آپ کے نام جو دو کانیں ہیں وہ میرے نام کروا دو۔ والدہ نے اس خیال سے کہ اس میں دیگر ورثاء کا بھی حق ہے انکار کیا، لیکن اس کی طرف سے مسلسل اصرار رہا، حتی کہ اس نے نفسیاتی دباؤ بنانے کے لیے والدہ کو یہ دھمکی دی کہ اگر آپ یہ دکانیں میرے نام نہیں کرتی تو میں اپنے آپ کو گالی مار دوں گا، اپنے آپ کو ختم کر دوں گا۔

اس نے ایسے انداز سے دباؤ پیدا کیا کہ والدہ مجبور ہو گئی اور اس نے وہ دکانیں اس بیٹے کے نام کروا دیں۔ دکانیں فارغ نہیں ہیں بلکہ کرایہ پر چڑھی ہوئی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا والدہ کی طرف سے ایسی مجبوری کی حالت میں کیا گیا ہبہ درست ہے؟ اور کیا کرائے پر چڑھی ہوئی دکانیں ہبہ کرنے سے ملک ہو جاتی ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ یہ دکانیں کرایہ پر چڑھی ہوئی تھیں اس لیے یہ ہبہ درست نہیں۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

لو وهب طفله داراً يسكن فيها قوم بغير أجر جاز و يصير قابضاً لابنه لا لو كان بأجر (و في تقريرات الرافعي) وهب داراً لابنه الصغير و فيها ساكن بأجر لا يجوز …. لأن يد الساكن بأجر ثابتة علي الموهوب بصفة اللزوم فيمتنع القبض فيمتنع تمام الهبة. فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved