• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشاع کے ہبہ کی چند صورتیں

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والد محترم **** صاحب کا انتقال مورخہ  جنوری 2012ء کو ہوا، اور پسماندگان میں 6 بیٹے اور 2 بیٹیاں چھوڑیں، اور ترکہ میں دو مکان چھوڑے ہیں۔ ایک مکان دس مرلے کا اور دوسرا چھ مرلے کا ہے۔ والد محترم نے اپنی زندگی میں 17 جنوری 2008ء کو اپنی بہو آسیہ المعروف ***کے نام ایک وصیت نامہ لکھا کہ میری وفات کے بعد میری متروکہ جائیداد کا 3/1 حصہ میری بہو (مذکورہ بالا) کو دے دیا جائے۔ بعد ازاں کسی کے کہنے پر کہ شاید دیگر ورثاء اس کو تسلیم نہ کریں، اور مذکورہ طریقے کے مطابق تقسیم میں رکاوٹ ڈالیں، تو والد صاحب نے باقاعدہ طور پر مورخہ 17 مارچ 2010ء کو اپنے 10 مرلے والے مکان سے اڑھائی مرلے بذریعہ ہبہ نامہ اپنی مذکورہ بہو کے نام منتقل کر دیے۔ اور اپنی دونوں بیٹیوں کے نام بھی سوا مرلہ، اور سوا مرلہ بذریعہ ہبہ نامہ  مورخہ یکم نومبر 2010ء کو منتقل کر دیے۔ جبکہ 6 مرلے والے مکان کو بذریعہ ہبہ نامہ مورخہ 8 ستمبر 2009ء کو اپنے تین بیٹوں کے نام منتقل کروا چکے تھے، جن کے نام یہ ہیں: 1۔ ***، 2۔ ***، 3۔ ***۔ صورت حال یہ ہے کہ چھ مرلے مکان میں *** اور *** رہائش پذیر ہیں، اور 10 مرلے والے مکان میں*** اور اس کی بیوی آسیہ بی بی (مذکورہ بالا) اور دیگر تین بھائی ***،***، اور*** رہائش پذیر ہیں۔ اور دونوں بیٹیاں اپنے اپنے سسرال میں رہتی ہیں۔

والد محترم دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ جائیداد کس طرح تقسیم ہو گی؟ وصیت کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مرحوم نے اپنے تین بیٹوں (****) کو 6 مرلے کا مکان ہبہ کیا، اور اپنی ایک بہو اور دو بیٹیوں کو 10 مرلے مکان میں سے کل 5 مرلے ہبہ کیا۔ اب ترکہ میں 10 مرلے کا نصف باقی ہے، اور تین بیٹے ہیں (****) جن کو باپ نے کچھ نہیں دیا۔ ہبہ تو مکمل ہے، کیونکہ مشاع کا ہبہ صاحبین کے نزدیک جائز ہے، اور ہبہ کی صحت کے لیے موہوب لہ کا قبضہ مالکیہ کے نزدیک شرط نہیں ہے۔ چونکہ والد نے تین بیٹوں کو  سرے سے کچھ نہیں دیا تو گناہ کی بات ہے۔ اب اولاد کو چاہیے کہ والد کو گناہ سے بچانے کے لیے باقی وارث اپنے تین بھائیوں کو 10 مرلے کا نصف یعنی 5 مرلے کو ہبہ کر دیں[1]۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

نوٹ: آج کل لوگ عام طور سے ہبہ میں شیوع اور حسی قبضہ کا خیال نہیں کرتے، اس لیے جب ہم قبضہ میں مالکیہ کا قول لیتے ہیں تو تمام ہبہ جات میں یہی قول معتبر ہو گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

[1]۔ مفتی رفیق صاحب کا لکھا ہوا جواب:

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)۔ مذکورہ صورت میں 6 مرلے مکان کا ہبہ صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک صحیح ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح نہیں۔ بحر الرائق میں ہے:

(و لو وهب اثنان داراً لواحد صح) لأنهما سلماها جملة و هو قد قبضها جملة فلا شيوع … (لا عكسه) و هو أن يهب واحد من اثنين كبيرين و لم يبين نصيب كل واحد عند أبي حنيفة رحمه الله لأنه هبة النصف من كل واحد منهما بدليل أنه لو قبل أحدهما فيما لا يقسم صحت في حصته دون الآخر فعلم أنها عقدان … و قال يجوز نظراً إلی أنه عقد واحد فلا شيوع. (7/ 492)

اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

و أما الشيوع من طرف الموهوب له فمانع من جواز الهبة عند أبي حنيفة رحمه الله خلافاً لهما. (4/378)

(2)۔ 10 مرلے کے مکان میں سے سوا، سوا مرلہ ہر بیٹی کو ہبہ کرنا ہمارے تینوں ائمہ (یعنی امام ابو حنفیہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ) میں سے کسی کے نزدیک بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ اس ہبہ میں واہب اور موہوب لہ دونوں کی جانب میں شیوع ہے۔ موہوب لہ کی جانب میں شیوع تو واضح ہے۔ کیونکہ دونوں بیٹیوں کو 10 مرلہ مکان میں سے غیر متعین طور پر سوا، سوا مرلہ ہبہ کیا گیا ہے۔ اور واہب کی جانب میں شیوع اس طرح سے ہے کہ واہب نے بھی اپنا کل مکان ہبہ نہیں کیا، اس کا مشاع حصہ ہبہ کیا ہے۔ اور جب شیوع واہب اور موہوب لہ دونوں کی جانب میں ہو تو ہبہ بالاتفاق صحیح نہیں ہوتا۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

و الشيوع من الطرفين فيما يحتمل القسمة مانع من جواز الهبة بالإجماع. (4/ 378)

اور بحر الرائق میں ہے:

لو وهب داراً من اثنين أحدهما صغير و الآخر كبير، و الصغير في عياله لم تجز الهبة اتفاقاً، لأنه حين وهب صار قابضاً حصة الصغير فبقي النصف الآخر شائعاً. (7/ 493)

یہ عبارت اگرچہ اس صورت میں ہے جس میں موہوب لہ میں سے ایک صغیر ہو۔ اور ہماری صورت میں موہوب لہ دونوں کبیر ہیں۔ لیکن اس عبارت کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جیسے اس صورت میں صغیر کے حصہ پر قبضہ کرنے سے یہ صورت جانبین میں شیوع کی بن گئی، اور بالاتفاق نا جائز ٹھہری،  اسی طرح ہماری صورت میں واہب کی جانب میں شیوع پہلے ہی سے ہے۔ لہذا یہ صورت بھی شیوع من الجانبین کی بنی اور بالاتفاق نا جائز ٹھہری۔

اور اگر اس صورت کو شیوع من الجانبین کی صورت قرار نہ بھی دیں،تو پھر بھی ہبہ کی یہ صورت بالاتفاق صحیح نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں دونوں بیٹیوں کے مشاع حصے کو بیان کیا گیا ہے، یعنی کہ وہ سوا، سوا مرلہ ہے۔ اور ایسی صورت میں شیخین کے نزدیک تو ہبہ صحیح ہی نہیں، اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک اگرچہ ایسی صورت میں ہبہ درست ہے، لیکن وہ بھی قبضہ کی شرط لگاتے ہیں۔ اور مذکورہ صورت میں بیٹیوں کا قبضہ ہوا نہیں۔ کیونکہ وہ دونوں اپنے اپنے سسرال ہی میں رہائش پذیر ہیں۔

بحر الرائق میں ہے:

و قيدنا بعدم البيان لأنه لو بين بأن قال لهذا ثلثها و لهذا ثلثاها أو لهذا نصفها و لهذا نصفها لا يجوز عند أبي حنيفة و أبي يوسف و إن قبضه و قال محمد يجوز إن قبضه. (7/ 493)

(3)۔ 10 مرلہ مکان میں سے اڑھائی مرلے اپنی بہو کو ہبہ کرنا بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ یہ واہب کی جانب سے مشاع کا ہبہ ہے۔ اور واہب کی جانب سے مشاع کا ہبہ جائز نہیں۔ اور اس صورت میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔

لا تتم بالقبض فيما يقسم و لو وهبه لشريكه أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل. (رد المحتار: 8/ 576)

خلاصہ یہ ہے کہ (1) 6 مرلے کا ہبہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جائز نہیں۔ البتہ صاحبین کے نزدیک جائز ہے۔ (2) 10 مرلہ مکان میں سے بیٹیوں اور بہو کو کیا گیا ہبہ بھی صحیح نہیں، اور اس میں کچھ اختلاف نہیں۔ لہذا 6 مرلہ مکان اور 10 مرلہ میں سے 3/1 حصہ ان کی وصیت کے مطابق ان کی بہو کو دیا جائے، اور باقی جائیداد کو 14 حصوں میں تقسیم کر کے فی بہن ایک، ایک حصہ اور فی بھائی دو، دو حصے دیے جائیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

نوٹ: مذکورہ صورت میں ہبة المشاع کے جواز کے لیے ائمہ ثلاثہ حجازیین کے قول کو لینا درست نہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے مرحوم کے تین بیٹے مرحوم کی وراثت سے تقریباً بالکلیہ محروم ہو جائیں گے، اور انہیں وراثت سے کچھ خاص حصہ نہ ملے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved