• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لوہے کی راڈ سے قتل، دیت کی ادائیگی کے لیے زکوٰۃ لینا

استفتاء

ایک لڑکا حافظ قرآن، جماعت میں وقت لگایا ہوا اور دیندار گھرانے کا فرد ہے۔ اس سے اس کے سالے نے اپنے بہنوئی (حافظ صاحب) سے کرائے پر گاڑی منگوا کر اپنی سہیلی جو اس کے ساتھ فیکٹری میں کام کرتی تھی، اور اس سے شادی  کا خواہشمند تھا۔ اس کے ساتھ سیر سپاٹے کے لیے گاڑی کرایہ پر لے کر گیا۔ راستہ میں گاڑی کا ایکسیڈنت کر کے گاڑی کا بہت نقصان کر لیا تقریباً سوا لاکھ روپے کا نقصان گاڑی کا ہو گیا۔ چونکہ وہ گھرو الوں سے چوری لڑکی کے ساتھ گاڑی میں گیا تھا، اس لیے اس نے منت سماجت کر کے اپنے بہنوئی حافظ صاحب کو راضی کیا کہ گاڑی کا جرمانہ ادا کر دے میں بعد میں ادا کر دوں گا۔ لیکن کافی عرصہ تک اس نے رقم ادا نہ کی۔ اس دوران لڑکی سے شادی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے گھر  کے سامنے اپنے پر تیل چھڑک کر خود سوزی کر لی اور فوت ہو گیا۔ حافظ صاحب کی اہلیہ سے وہ اپنی رقم کی ادائیگی کے لیے بار بار کہتا رہا لیکن وہ اور اس کے گھر والے ٹال مٹول اور حیلے بہانے کرتے رہے۔ اس گھریلو کشیدگی کی وجہ سے لرکی میکے چلی گئی اور ناراضگی بنالی۔ اس دوران اس نے خرچہ کا دعویٰ دائر کر دیا۔ حافظ صاحب نے دعویٰ کر دیا کہ یا تو گھر آ جائے یا طلاق لے لے، خرچہ کا کیا سوال ہے؟ اس پر صلح کی بات چلی اور کچھ مطالبات پر صلح ہو گئی۔ مقررہ وعدہ پر حافظ صاحب کی والدہ، ہمشیرہ اور دو بھائی فروٹ لے کر ان کے گھر گئے۔ تو انہوں نے بہانہ کر کے ڈیڑھ بجے کا وقت دیا کہ لڑکے اپنے عزیز کی عیادت کے لیے ہسپتال گئی ہے۔ حافظ صاحب کے گھر والوں کو شک تھا کہ وہ سکول میں پڑھاتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے سکول جا کر  وہاں پتہ کیا تو واقعی اس سے سکول میں ملاقات ہو گئی اور پتہ چل گیا کہ وہ سکول میں پڑھاتی ہے۔ حافظ صاحب کی والدہ اور ہمشیرہ اس کو سکول میں مل کر واپس آ گئے۔

دوبارہ ڈیڑھ بجے ان کے  گھر لینے گئے تو انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ اس نے سکول میں پڑھانے کا دو سال کا معاہدہ کیا ہوا ہے، لہذا یہ سکول میں پڑھائے گی۔ حافظ صاحب کے گھر والوں نے کہا کہ اس کے بارے میں اجازت اس کا خاوند ہی دے سکتا ہے، چنانچہ حافظ صاحب کو بلوایا گیا، اس نے کہا کہ ہم سکول میں پڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتے، سکول کا ماحول ٹھیک نہیں۔ وہ اصرار کرتے رہے کہ یہ پڑھائے گی، حافظ انکار کرتے رہے، اس پر جھگڑا شروع ہو گیا، جس میں حافظ صاحب کی والدہ کو دو فائر لگ گئے۔ حافظ صاحب نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ تم امی اور ہمشیرہ کو لے ہسپتال فوراً لے جاؤ، میں اپنے چھوٹے بیٹے ڈیڑھ سال کا جو والدہ کے پاس تھا (یعنی اس کی بیوی کے پاس) اس کو لے کر آؤں گا۔

لڑکے کو لانے میں انہوں نے مزاحمت کی، جس میں دوبارہ جھگڑا ہو گیا۔ حافظ صاحب اپنا دفاع کرتے ہوئے اور لڑکا لانے کے لیے اس نے اپنی ساس اور سسر کو سریا لوہے کے راڈ سے زخمی کر دیا۔ اس بلوے اور جھگڑے میں اس کی بیوی بھی زخمی ہو گئی۔ چنانچہ یہ لڑکا چھین کر واپس رکشہ میں بیٹھ کر آ گیا۔ اور اس کی ساس ہسپتال جاتے ہوئے راستہ میں دم توڑ گئی، اور سسر 6 روز بعد ہسپتال میں فوت ہو گیا۔ دونوں کی مقدمات چل رہے ہیں۔

اب صلح کی بات چلی ہے، جس میں پندرہ لاکھ کے بدلے وہ معاف کرنے اور مقدمہ سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔

ہم دریافت کرتے ہیں کہ یہ قتل عمد ہےیا قتلِ خطا؟ اگر ہم پندرہ لاکھ روپے بطور صلح کے دیدیں تو شریعت کی رُو سے مزید کوئی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی؟

پندرہ لاکھ کی رقم ادا کرنے کی ہم میں استطاعت نہیں ہے کیا ہم اس مد میں زکوٰۃ کی رقم لگ سکتی ہے؟ یا قرض لے کر رقم ادا کرنے کے بعد ہم پر زکوٰۃ کی مد میں مدد ہو سکتی ہے۔ اس کا جواب مرحمت فرمائیں۔

نوٹ: لونے کے راڈ مارنے کی وجہ سے سسر اور ساس کو زبردست چوٹیں آئی تھی اور ٹانکے لگے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت قتل عمد کی ہے، جوکہ گناہ کبیرہ ہے، قاتل کو اسے توبہ استغفار کرنا چاہیے۔

قتلِ عمد کے بدلے میں قصاص آتا ہے، لیکن چونکہ یہاں قصاص کے بدلے پیسوں پر صلح ہو رہی ہے تو قصاص ساقط ہو جائے گا اور پیسوں پر صلح کرنا درست ہے، اس کے علاوہ قاتل پر شرعاً کوئی ذمہ داری نہیں۔

(الأول عمد و هو أن يتعمد ضربه) ب (آلة تفرق الأجزائ مثل سلاح … و في البرهان: و في حديد غير محدد كالسنجة روايتان، أظهرها أنها عمد… و موجبه الإثم … و موجبه القود عيناً الخ. (رد المحتار: 10/ 158)

(و) صح أي الصلح (في) الجناية (العمد) مطلقاً و لو في نفس مع إقرار (بأكثر من الدية) أو أقل لعدم الربا. تحته في الشامية: (لعدم الربا) لأن الواجب فيه القصاص و هو ليس بمال. (رد: 8/ 480)

2۔ قرض کے بغیر بھی زکوٰۃ کی رقم لے سکتے ہیں۔ اور اگر قرض لے لیا تب بھی زکوٰۃ کی رقم لے سکتے ہیں۔ فقط و اللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved