• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’تو میری طرف سے آزاد ہے، میں نے تجھے آزاد کیا‘‘

استفتاء

محترم مختصر الفاظ میں اپنا مسئلہ پیش کرنا چاہتی ہوں، غور فرمائیے میری شادی عرصہ 25 سال پہلے جس شخص سے ہوئی اس سے میری 4 اولادیں بھی ہیں لیکن عرصہ 12 سال پہلے وہ شخص اپنی مردانگی مکمل کھو چکا تھا، بیمار وہ پہلے بھی تھا مگر علاج معالجہ دوائی دارو سے کام چلتا رہا، رب تعالیٰ نے ہمیں اولاد عطا کرنی تھی حیلہ چلتا رہا، اس کے بعد لاکھ کوشش کے بعد بھی وہ ٹھیک نہ ہوا تو ہمارے درمیان بدمزگیاں پیدا ہونے لگیں، نفرتیں اور دوریاں بڑھنے لگی، کرتے کرتے نوبت علیحدگی کی آگئی پھر عرصہ تین سال پہلے اس نے مجھے میری اولاد کے سامنے کہہ دیا کہ ’’تو میری طرف سے آزاد ہے، میں نے تجھے آزاد کیا‘‘ لیکن باقاعدہ کاغذاتی طلاق نہیں دی۔ ان تین  سالوں میں نہ تو ہم نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی نہ کبھی بات کی، نہ اس نے مجھے کبھی خرچ دیا، نہ کفالت کا ذمہ لیا، میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بیٹے محنت مزدوری کرتے ہیں اور گھر کا خرچ چلاتے ہیں، اور چھوٹے دو بہن بھائیوں کو پڑھاتے ہیں۔

محترم! قرآن و شریعت کی روشنی میں مجھے آگاہ کیجیے کہ میرے لیے کیا حکم ہے؟ کیا مجھے اس شخص سے علیحدگی پر گناہ لازم ہے؟ اور یہ کہ میں اگر عدالت سے ڈگری لیتی ہوں تو اس کا ایشو معاشرہ میں میرے بچوں کی زندگی تباہ کر سکتا ہے۔ لہذا برائے کرم میری مدد کیجیے رہنمائی فرمائیے، بہت عرصہ سے بہت پریشان ہوں۔

تنقیحات:

میں یہ فتویٰ اس لیے لینا چاہتی ہوں تاکہ میں ایسا شخص جو بیوی کے حقوق ادا نہیں کر سکتا ان کے ساتھ  کیسے رہوں، اور میں ایسے شخص سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔

میں نے اپنی بیٹی کو ان کے پاس بھیجا تو انہوں نے کہا جاؤ عدالت کے ذریعے سے نوٹس بھیجو تو میں سائن کر دوں گا اور ختم کر لوں گا۔

وضاحت مطلوب ہے:

کہ شوہر نے یہ الفاظ کہ ’’تم میری طرف سے آزاد ہو‘‘ کس پس منظر میں کہے تھے؟

جواب وضاحت:

میرا میرے میاں کے ساتھ میرے حقوق ادا نہ کرنے پر جھگڑا چل رہا تھا، میں نے اپنے میاں سے کہا کہ اگر میرے حقوق ادا نہیں کر سکتے تو مجھے کسی طرف لگاؤ، میرا کچھ کرو، اسی گرما گرمی میں میرے میاں نے مجھے کہا کہ ’’تم میری طرف سے آزاد ہو ۔۔۔ الخ‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  دو بائنہ طلاقیں ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے ، لہذا مذکورہ صورت میں اس شخص سے علیحدہ رہنا لازم ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں۔

چونکہ طلاق تو ہو ہی گئی ہے اس لیے عدالت سے تنسیخ نکاح کی ڈگری لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

توجیہ:  ’’تم میری طرف سے آزاد ہو‘‘ کا جملہ کنایات کی تیسری قسم میں سے ہے، جو غصہ کی حالت میں یا مطالبۂ طلاق کی حالت میں نیت کا محتاج نہیں، لہذا ایک بائنہ طلاق اس جملہ سے واقع ہو گئی۔ اس کے بعد شوہر کا یہ جملہ کہ ’’میں نے تجھے آزاد کیا‘‘ طلاق کے لیے صریح ہے لہذا ایک طلاق اس سے ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved